کر کے دل کو شکار آنکھوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر کے دل کو شکار آنکھوں میں
by میر اثر

کر کے دل کو شکار آنکھوں میں
گھر کرے ہے تو یار آنکھوں میں

چشم بد دور ہو نظر نہ کہیں
ہے نپٹ ہی بہار آنکھوں میں

اور سب چہرہ بازیوں کے سوا
عشوہ ہے صد ہزار آنکھوں میں

کیا کہوں کچھ کہی نہیں جاتی
باتیں ہیں بے شمار آنکھوں میں

جس گھڑی گھورتے ہو غصہ سے
نکلے پڑتا ہے پیار آنکھوں میں

تیر مژگاں دلوں کے پار ہوئے
ہے یہ گزر و گزار آنکھوں میں

یار تیرے لئے یہ گوہر اشک
تھے برائے نثار آنکھوں میں

اشک خونیں کے یہ نہیں قطرے
یہ رہے ہیں شرار آنکھوں میں

دیکھنا ٹک اثرؔ سے نظریں ملا
کیا ہوئے تھے قرار آنکھوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse