کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
by عزیز لکھنوی

کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
اب ہمیں دے دو یہ مٹی ہے ہمارے کام کی

ڈوب دے دے بادۂ گل رنگ میں زاہد اگر
دیکھیے رنگینیاں پھر جامۂ احرام کی

عکس ابرو دیکھتے ہیں بادۂ سرجوش میں
عید ہے ساقی پرستوں میں ہلال جام کی

ابتدائے عشق ہے اور بجھ رہا ہے دل مرا
ہو چلی دھیمی ابھی سے لو چراغ شام کی

آنکھ میں آنسو ہیں ماتھے پر عرق ہے موت کا
لے خبر عمر رواں اپنے چھلکتے جام کی

ہو گئی بازیچۂ اطفال بے ذوق و شعور
شاعری جو تھی مرادف معنی الہام کی

پختگی سمجھے ہوئے ہیں جو تناسب کو فقط
چاہیے اصلاح ان کو اس خیال خام کی

ہے یہ نازک فن جو شایان تہی مغزی نہیں
دور مجلس میں ضرورت کیا ہے خالی جام کی

ٔہے عزیزؔ آئینۂ لفظی مراعات النظیر
حسن معنی جب نہیں پھر شاعری کس کام کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse