کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے
by مردان علی خاں رانا

کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے
ہاتھ ملتا ہی رہا دیکھ کے صیاد مجھے

عمر بھر یوں تو کبھی لی بھی نہ کروٹ پس مرگ
حیف رہ رہ کے کیا کرتے ہیں اب یاد مجھے

حکم درباں کو ہے زنہار نہ آنے پائے
غیر کے سامنے کرتے ہیں مگر یاد مجھے

باغباں گلشن عالم کا میں وہ بلبل ہوں
طائر سدرہ کہا کرتا ہے استاد مجھے

ہم صفیروں کو مرا حال کھلے گا پس مرگ
دیکھنا دل میں کریں گے وہ بہت یاد مجھے

صحن گلشن میں مرے پھول کریں گے گلچیں
روئے گا سونا قفس دیکھ کے صیاد مجھے

راہ الفت میں ملاقات ہوئی کس کس سے
دشت میں قیس ملا کوہ میں فرہاد مجھے

غیب سے ہوتے ہیں القا مرے دل میں مضمون
دیکھ فیضان سخن کا ہے خداداد مجھے

سبز باغ آتا ہے دنیا کا نظر جب رعناؔ
یاد آتی ہے بہت حسرت شداد مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse