کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
by نظیر اکبر آبادی

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا

بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا

اس کان کے جھمکے کی لٹک دیکھ لی شاید
ہر خوشہ اسی تاک میں رہتا ہے عنب کا

دیکھا جو بڑی دیر تلک اس نے منہ اپنا
لے دست حنا بستہ میں آئینہ حلب کا

جب ہم نے کہا رکھیے اب آئینہ کو یہ تو
حصہ ہے کسی اور بھی دیدار طلب کا

یہ سن کے ادھر اس نے کیا غصے میں منہ سرخ
بھبکا ادھر آئینہ بھی ہمسر ہو غضب کا

تم ربط کے ڈھب جس سے لڑاتے ہو نظیرؔ آہ
وہ دلبر عیار ہے کچھ اور ہی ڈھب کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse