کر سکی کچھ نہ تری زلف سیاہ فام مرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر سکی کچھ نہ تری زلف سیاہ فام مرا
by بوم میرٹھی

کر سکی کچھ نہ تری زلف سیاہ فام مرا
کفر کے سایہ میں بڑھتا رہا اسلام مرا

ساقیا میز پہ رہنے دے ابھی جام مرا
مست آنکھوں نے تیری کر دیا الٹام مرا

کیا کہا تو نے بڑھاپے میں نہ لے نام مرا
حسن تھا خام ترا عشق نہیں خام مرا

لڑتے ہی پہلی نظر جان تصدق کر دی
ہو گیا ساتھ ہی آغاز کے انجام مرا

تم اگر پیار سے دیکھو تو ابھی جی جاؤں
نگہ ناز میں ہے زیست کا پیغام مرا

بومؔ چپکے سے وہیں دے دیا بوسہ اس نے
کان میں جب یہ کہا نیند کا انعام مرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse