کر دیا زلف پریشاں سا پریشاں مجھ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر دیا زلف پریشاں سا پریشاں مجھ کو
by جمیلہ خدا بخش

کر دیا زلف پریشاں سا پریشاں مجھ کو
دشت میں چھوڑ گیا ہے دل ناداں مجھ کو

داغ یاران وطن تھا جو دل محزوں میں
وہ نظر آیا چراغ تہ داماں مجھ کو

جاں کنی سے کہیں اچھا ہے مرا مر جانا
نیم بسمل نہ بنا ناوک مژگاں مجھ کو

جلوۂ صبح قیامت کا مزہ دیتا ہے
چاک دل چاک جگر چاک گریباں مجھ کو

مرغ دل دام میں گیسو کے الجھ کر نہ کہے
ہو مبارک تمہیں گلشن تو یہ زنداں مجھ کو

جلوۂ حسن خدا داد دکھا کر دلبر
مثل آئینہ کیا آپ نے حیراں مجھ کو

اپنا اپنا یہ مقدر ہے کہوں کیا واعظ
محفل وعظ تجھے محفل رنداں مجھ کو

اپنی تنہائی پہ روتا ہوں بڑی حسرت سے
اپنا پہلو جو نظر آتا ہے ویراں مجھ کو

غنچۂ زخم جگر کھل کے دکھا دیتے ہیں
چمن عشق صنم کا گل خنداں مجھ کو

میہماں گوشۂ تربت کا مجھے ہونا ہے
کیوں نہ مرغوب ہو یہ گور غریباں مجھ کو

منتیں موت کی کرتا ہوں تو وہ کہتی ہے
زندگی نے تو کیا تیرا نگہباں مجھ کو

شعر گوئی نہیں سیکھی ہے جمیلہؔ میں نے
میری فطرت نے کیا صاحب دیواں مجھ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse