کروں میں کہاں تک مدارات روز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کروں میں کہاں تک مدارات روز
by سعادت یار خان رنگین

کروں میں کہاں تک مدارات روز
تمہیں چاہیئے ہے وہی بات روز

مجھے گھر کے لوگوں کا ڈر ہے کمال
کروں کس طرح سے ملاقات روز

مرا تیرا چرچا ہے سب شہر میں
بھلا آؤں کیونکر میں ہر رات روز

کہاں تک سنوں کان تو اڑ گئے
تری سنتے سنتے حکایات روز

گئے ہیں مرے گھر میں سب تجھ کو تاڑ
کیا کر نہ رنگیںؔ اشارات روز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse