کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے
by رجب علی بیگ سرور

کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے
کہ فرقت ڈالی تجھ سے گل بدن سے

تری فرقت کا یہ صدمہ پڑا یار
زباں ناآشنا ہو گئی سخن سے

دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے

کھلا ہے تختۂ لالہ جگر میں
ہمیں کیا کام اب سیر چمن سے

نہ پہنچا گوش تک اک تیرے ہیہات
ہزاروں نالہ نکلا اس دہن سے

دماغ جاں میں ہے یہ بوئے کاکل
کہ نفرت ہو گئی مشک ختن سے

جگر پر لاکھ تیشے غم کے نت ہیں
رہی نسبت ہمیں کیا کوہ کن سے

سرورؔ آتا ہے جب وہ یاد دلبر
تو جاں بس میری ہو جاتی ہے سن سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse