کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
by حفیظ جونپوری

کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
اک بار نہیں اس کو سو بار سمجھ لینا

ہم ہوں کہ عدو اس میں جو ظلم کا شاکی ہو
کرتا ہی نہیں تم کو وہ پیار سمجھ لینا

مر جائے مگر جانا اس کی نہ عیادت کو
تم جس کو محبت کا بیمار سمجھ لینا

بن بن کے بگڑتا ہے وہ کام محبت میں
آسان نہیں جس کو دشوار سمجھ لینا

غفلت کدۂ ہستی جب کہتے ہیں عالم کو
سودا ہے پھر اپنے کو ہشیار سمجھ لینا

محفل میں رقیبوں کی جانا ہے اگر تم کو
صورت سے مجھے اپنی بیزار سمجھ لینا

دل پر تو لگاتے ہو تم تیر نظر لیکن
آہوں کو ہماری بھی تلوار سمجھ لینا

چھیڑا جو مرے آگے پھر تذکرۂ دشمن
رکھی ہوئی ہے مجھ سے تکرار سمجھ لینا

پوشیدہ حفیظؔ اس میں اسرار محبت ہیں
آسان نہیں میرے اشعار سمجھ لینا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse