کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
by آرزو لکھنوی

کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
مجھے سوء ظن نہیں ہے کہ دعا کروں خدا سے

دل مطمئن کی وسعت کوئی کم ہے ماسوا سے
مجھے کاہے کی کمی ہے جو طلب کروں خدا سے

ہوئی ختم غم کی آندھی وہی دل کی لو ہے اب بھی
یہی شعلہ تھا وہ شعلہ کہ لڑا کیا ہوا سے

کہے کون اسے پتنگا جو ہے شعلے پر دھواں سا
تجھے لے اڑے ہیں کتنا ترے پر ذرا ذرا سے

جو ہے سب کا دینے والا میں اسی کو چاہتا ہوں
مری بھیک وہ نہیں ہے کہ ملے کسی گدا سے

یہ ہے قصر زندگانی کہ حباب بحر فانی
ابھی بن گیا ہوا سے ابھی مٹ گیا ہوا سے

یہ خیال خود ہے ایسا جو خوشی بنا دے غم کو
کہ ہے ابتدا خوشی کی مرے غم کی انتہا سے

مرا دل رضا پہ راضی کرم اس کا جوش پر ہے
جو اب آ گئی زباں تک تو اثر گیا دعا سے

مری لاکھ منتوں پر تری اک حیا ہے بھاری
کوئی پردہ ہے وہ پردہ کہ ہلے ڈلے ہوا سے

ترے پاکباز الفت نہیں ہارنے کے ہمت
جو مریں گے ڈوب کر بھی تو مریں گے رہ کے پیاسے

کسی دل کی آس یوں بھی کبھی آرزوؔ نہ ٹوٹے
یہ کہے بنی ہے دم پر وہ کہے مری بلا سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse