کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم
by حاتم علی مہر

کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم
جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم

پیچھے کہیں رہے نہیں آہ رسا سے ہم
جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم

ایذا کی اپنی فکر کریں گے دوا سے ہم
ڈھونڈیں گے کوئی موت کا نسخہ شفا سے ہم

زاہد برا نہ مانیں گے اس بد دعا سے ہم
ہوں بت پرست چاہتے ہیں یہ خدا سے ہم

الجھیں گے ایک بار تو زلف دوتا سے ہم
سودائی ہوں سڑی ہوں تمہاری بلا سے ہم

تیغ نگہ نہ تیر مژہ نے کیا ہلاک
ہاں مر گئے ہیں آپ ہی اپنی قضا سے ہم

نا قدر سے ہی قدر کی امید ہے عبث
او بے وفا خجل ہوئے اپنی وفا سے ہم

گھر جا کے ان کے روگ لگا لائے عشق کا
بیمار ہو کے آئے ہیں دار الشفا سے ہم

آب حیات خضر و سکندر کو چاہئے
ساقی فقط شراب کے ہیں اک پیا سے ہم

بولے مسیح دیکھ کے بیمار عشق کو
مجبور ہیں اسی مرض لا دوا سے ہم

جھیلی ہوئی ہیں عشق میں لاکھوں مصیبتیں
ڈرتے نہیں ہے آپ کے جور و جفا سے ہم

گھر میں حضور کے ہمیں سونا نصیب ہو
آئے ہیں مال مارنے دولت سرا سے ہم

گلزار ہے شہیدوں کا جنت کا ہم سواد
جائیں گے تو نہ آئیں گے پھر کربلا سے ہم

قسمت کا اپنی پیچ ہوا گیسوؤں کا پیچ
بدلیں سیاہ طالع ظل ہما سے ہم

دل میں ترے اثر نہ ہوا عرش ہل گیا
نادم ہیں نا رسائی آہ رسا سے ہم

اچھا ہوا نہ دفن ہوئی نعش بعد مرگ
کیا مشت استخواں کو چھپاتے ہما سے ہم

سوتے نہیں ہیں رات کو بھی ہم تو چین سے
کرتے ہیں مہرؔ انس جو اک مہ لقا سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse