کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار
by بخش ناسخ

کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار
تلوار کی تلوار ہے رفتار کی رفتار

کج ایسی نہ تھی آگے مرے یار کی رفتار
سیکھا ہے مگر چرخ ستم گار کی رفتار

سر گرتے ہیں کٹ کٹ کے وہ رکھتا ہے جہاں پاؤں
سیکھی ہے مگر یار نے تلوار کی رفتار

گردش ہے تری نرگس بیمار کو دن رات
دیکھی نہیں ایسی کسی بیمار کی رفتار

ٹلتی نہیں زلفوں کے تصور کی طرح سے
ہے طرفہ جدائی کی شب تار کی رفتار

لغزش نہ ہو کیوں کر رہ دیں میں مجھے زاہد
یاد آ گئی اس کافر مے خوار کی رفتار

ظالم ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیوں کر نہ چلوں سایۂ دیوار کی رفتار

کیا مار کو نسبت ترے گیسو کے چلن سے
ہے سایۂ گیسو میں صنم مار کی رفتار

موتی عوض نقش قدم گرتے ہیں ناسخؔ
ایسی ہے مری کلک گہر بار کی رفتار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse