Jump to content

کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا

From Wikisource
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
by میر تقی میر
313535کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلامیر تقی میر

کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
احوال زار شاہ شہیدان کربلا
باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا
پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان کربلا

انصاف کی نہ ایک نے کی چشم نیم باز
کھولے ستم کے ہاتھ زبانیں کیاں دراز
قتل امام مقصد و تیاری نماز
بدتر تھے کافروں سے مسلمان کربلا

سیلاب تھا بلا کا ہر اک سمت گرم جوش
فریاد بیکساں کی طرف کم کسو کے گوش
آل نبی تمام ہوئی خوں سے سرخ پوش
صلواۃ بر حسین و جوانان کربلا

انواع جور مدعی ایجاد کر گئے
تخت و کلاہ احمدی برباد کر گئے
کیا تیرہ روز شامی بھی بیداد کر گئے
پایا زبون مور سلیمان کربلا

منصف تھے ہائے کتنے دروں تیرہ اہل شام
خوش تشنہ لب جنھوں نے کیا کشتن امام
فخر بشر کا نور دل و دیدہ تشنہ کام
سیراب وحش و طائر و حیوان کربلا

یارب نہ تھا سپہر پہ اس وقت کوئی بھی کیا
جب سر پہ اہل بیت کے تھی اس قدر جفا
ہوتا کوئی تو دیکھتا ہی سر کو ٹک جھکا
تا لامکاں تھا شور غریبان کربلا

نوک سناں پہ رکھ کے چلے لے سر امام
ناموس کے جو لوگ تھے بندی ہوئے تمام
ٹکڑے جگر کے ہوتے تھے کرتا تھا جب کلام
بے خانماں وہ جمع پریشان کربلا

بیٹے بھتیجے اس کے جواں مارے سب پڑے
ہو ٹکڑے ٹکڑے سامنے بیکس بہت لڑے
فرصت نہ اتنی دی کہ کوئی خاک میں گڑے
پوشیدہ کیا ہے ظلم نمایان کربلا

سر اس کا کٹ کے نیزے پہ جس دم رکھا گیا
نونیزہ پانی چڑھ کے جیوں کو ڈبا گیا
ہرچند بوند پانی کی کوئی نہ پا گیا
لیکن خدا کا قہر تھا طوفان کربلا

تھی عابدیں کے لب پہ شکایت یہ خونچکاں
کاے چرخ آہ کیونکے نبھے گا یہ کارواں
یہ سب ہیں زیربار الم میں ہوں ناتواں
طے کس طرح سے کریے بیابان کربلا

مشفق پدر تو رخت سفر کر گیا ہے بار
بھائی کو اس سے آگے ہی دشمن گئے تھے مار
ہوں میں برہنہ پا سو مرض سے نحیف و زار
پھر ہر قدم پہ خار مغیلان کربلا

ہے تودہ تودہ لاشوں پہ جن کی یہ خاک دھول
سب یہ شگفتہ رو تھے نگاہوں میں جیسے پھول
منھ دیکھ ان کے کہتے تھے صلواۃ بر رسولؐ
گلزار تھی یہ وادی ویران کربلا

اب سب ہی خاک و خون میں وے ہیں اٹے پڑے
اشجار و نونہال ہیں سارے کٹے پڑے
دل ہیں فگار سینے ہیں سب کے پھٹے پڑے
مسلخ سے کم نہیں یہ گلستان کربلا

جل جل کے ایک ایک سے اس کا تھا یہ خطاب
کاے قوم بس بہت ہوئی اب کم ہے جی میں تاب
پہلو سے میرے ہے جگر دشت بھی کباب
رکھ ہاتھ دیکھ سینۂ بریان کربلا

یہ آگے جانتے نہ تھے دیکھیں گے یہ ستم
خون پدر گرے گا زمیں پر رکیں گے دم
اندوہ و درد و رنج و الم اب ہے اور ہم
خرد و کلاں ہیں کشتۂ احسان کربلا

موقوف ہوگی غم کشی یہ جب نہ ہوں گا میں
مدت تلک مصیبتیں اپنی کہوں گا میں
جیتا رہوں گا جب تئیں روتا رہوں گا میں
اب تھم چکے یہ دیدۂ گریان کربلا

زینب کے لب سے حرف نکلتے تھے شکوہ ناک
آشفتہ مو وہ سر میں کھڑی ڈالتی تھی خاک
کہتی تھی تا سپہر مگر اے خداے پاک
جاتے نہیں یہ نالہ و افغان کربلا

شاید غبار رکھتی ہیں چشمان مہر و ماہ
احوال پر ہمارے نہیں مطلقاً نگاہ
پردہ رہے جو گر پڑے گردون روسیاہ
ہیں سربرہنہ خاک نشینان کربلا

باد شمال ظلم ادھر کو جو آگئی
ایک ایک کرکے دین کی شمعیں بجھا گئی
دل داغ سارے کر گئی سینے جلا گئی
سب اڑ گئی وہ خوبی ایوان کربلا

پیٹے ہیں ہم حسین کو جو کھول کھول بال
کیا خاطروں سے جاتے رہیں گے ہمارے حال
اشجار بید کے جو ہیں سو سالہاے سال
دیویں گے یاد یہ سر عریان کربلا

کرتے جو نوحہ لاشوں پہ ہم جمع آ ہوئے
آنکھوں سے دل کے ٹکڑے گرے بال وا ہوئے
بے جا ہمارے شور سے وحشی بجا ہوئے
دیواں ہوا ہے حشر کا دیوان کربلا

اس لوٹے کاروان کا دیکھے کوئی گذار
یہ سانحہ ہوا ہے زمانے کا یادگار
عترت نبیؐ کی اونٹوں پہ ہے ننگے سر سوار
سجاد نالہ کش ہے حدی خوان کربلا

وارث کے پیچھے جانیں گئیں وسوسوں سے ہائے
کیا طرحیں چرخ کرتے ہیں ہم بیکسوں سے ہائے
کیسی کمی اٹھائی ہے ہم نے خسوں سے ہائے
کس سے کہیں یہ درد فراوان کربلا

ناگہ نگہ جو لاش پہ قاسم کی جا پڑی
ساعت وہ گذری اہل حرم پر بہت کڑی
ماں اس کی سر کو پیٹتی کہتی تھی یہ کھڑی
ہے دیدنی یہ نوشہ بے جان کربلا

چن چن کے دشمنوں نے عزیزوں کے کاٹے سر
مارا پڑا رئیس تلف ہوگئے پسر
سر پر نہ عورتوں کے ردا تھی نہ ان کو گھر
آئی نہ کام ہمت مردان کربلا

آیا جو شاہ یاں تو یہیں کا یہیں رہا
انواع جور و ظلم و ستم جان پر سہا
آخر کو خون اس کا اسی خاک پر بہا
نکلا نہ پھر وہ یوسف زندان کربلا

آنکھوں کو جس کی رہ میں بچھایا کیے ہیں ہم
منت سے جس کے ناز اٹھایا کیے ہیں ہم
مسند پہ جس کو ناز کی پایا کیے ہیں ہم
سو خاک میں پڑا ہے وہ سلطان کربلا

یہ مردمی تو دیکھو کہ دریا بہا کیا
خیمہ کھڑا کنارے پر اس کے رہا کیا
شہ بہر طفل پانی ہی پانی کہا کیا
پیاسا موا ندان وہ نادان کربلا

بالفرض دشمنوں نے نہ کی اس طرف نظر
کینہ سے ہونٹ سوکھے ہمارے نہ چاہے تر
اک ابر بھی نہ آن کے برسا تنک ادھر
تا آسماں تھی شورش عطشان کربلا

کلثوم یوں تھی لاش پہ بھائی کی حرف زن
سر کیا ہوا کہ خاک میں پامال ہے بدن
پھر وجہ کیا کہ اب نہیں ملتا تجھے کفن
اے بادشاہ بے سر و سامان کربلا

ہم کچھ کریں جو فکر سو قدرت نہیں ہمیں
ماتم میں تیرے بیٹھیں سو فرصت نہیں ہمیں
میت کی رسمیں کرتے سو مہلت نہیں ہمیں
رسوائی کر رہے ہیں نگہبان کربلا

مہمانی ہم مسافروں کی کیا رہی ہے یاں
لخت دل و جگر تھے جو مارے پڑے جواں
جانا نہ ہم نے یاں کا دم آب و پارہ ناں
دیکھی سو اب یہ نعمت الوان کربلا

اس خاک پر اترتے نہ فرصت تجھے رہی
درپیش ہر قدم پہ قیامت تجھے رہی
بے ڈولیوں سے یاں کی کدورت تجھے رہی
شائستگی مگر نہ تھی شایان کربلا

ہو دلخوشی کسو کو تو ہو بھی شگفتہ رو
شادی ہو جان کو تو کرے ہنس کے گفتگو
تھی رونے کی جگہ کہ بخود ہم نہ تھے نہ تو
لب ہاے زخم تھے لب خندان کربلا

ہفتم سے آب و دانہ کا قدغن ہوا تھا یاں
جز ذکر تیغ تیز کچھ آیا نہ درمیاں
سادات کشتہ جانتے ہیں یا انھوں کی جاں
جو دیکھ کر موئے ہیں یہ حرمان کربلا

کروبیوں کے گوش مگر کر تھے اس گھڑی
جس وقت کشت و خون کی یاں دھوم تھی پڑی
صف عورتوں کی لاشوں پہ چلاتی تھی کھڑی
محشر بہ بر تھا ہر دل نالان کربلا

یاں سے نہیں چلے ہیں ہم ایسے ہو پائمال
جو خاطروں سے اپنے فراموش ہو یہ حال
اب جاچکی دلوں سے یہ حیرانی و ملال
رہیے گا زندگی تئیں حیران کربلا

القصہ پیٹ روکے گئے آگے وے اسیر
دل چاک سر میں خاک جواں اور خرد و پیر
بس تو بھی اپنے ہاتھ سے رکھ کر قلم کو میرؔ
کہہ باد سے کہ ہووے گل افشان کربلا

بعد از نماز و سجدہ کرے در پہ التماس
کاے شاہ بندہ پرور و قدر گداشناس
مقصود میرؔ یہ ہے کہ اب ترک کر لباس
جوں زائران چاک گریبان کربلا

ہندوستاں سے قطرہ زن آوے چلا ہوا
مانند ابر چند پھرے دل بھرا ہوا
تو ملتفت ہوا کہ یہ مطلب روا ہوا
دیوے گا پھر نہ ہاتھ سے دامان کربلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.