کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
by مومن خان مومن

کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
دس بیس روز مرتے ہیں دو چار کے لیے

دیکھا عذاب رنج دل زار کے لیے
عاشق ہوئے ہیں وہ مرے آزار کے لیے

دل عشق تیرے نذر کیا جان کیونکہ دوں
رکھا ہے اس کو حسرت دیدار کے لیے

قتل اس نے جرم صبر جفا پر کیا مجھے
یہ ہی سزا تھی ایسے گنہ گار کے لیے

لے تو ہی بھیج دے کوئی پیغام تلخ اب
یہ تجویز زہر ہے ترے بیمار کے لیے

آتا نہیں ہے تو تو نشانی ہی بھیج دے
تسکین اضطراب دل زار کے لیے

کیا دل دیا تھا اس لیے میں نے تمہیں کہ تم
ہو جاؤ یوں عدو مرے اغیار کے لیے

چلنا تو دیکھنا کہ قیامت نے بھی قدم
طرز خرام و شوخی رفتار کے لیے

جی میں ہے موتیوں کی لڑی اس کو بھیج دوں
اظہار حال چشم گہربار کے لیے

دیتا ہوں اپنے لب کو بھی گلبرگ سے مثال
بوسے جو خواب میں ترے رخسار کے لیے

جینا امید وصل پہ ہجراں میں سہل تھا
مرتا ہوں زندگانی دشوار کے لیے

مومنؔ کو تو نہ لائے کہیں دام میں وہ بت
ڈھونڈے ہے تار سبحہ کے زنار کے لیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.