کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر
Appearance
کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر
زمیں یہ سر پر آ جاتی ہے اک دن آسماں ہو کر
مرے نقش قدم نے راہ میں کانٹے بچھائے ہیں
بتائیں تو وہ گھر غیروں کے جائیں گے کہاں ہو کر
خدا سے سرکشی کی پیر زاہد اس قدر تو نے
کہ تیرا تیر سا قد ہو گیا ہے اب کماں ہو کر
کوئی پوچھے کہ میت کا بھی تم کچھ ساتھ دیتے ہو
یہ آئے مرثیہ لے کر وہ آئے نوحہ خواں ہو کر
ارادہ پیر زاہد سے ہے اب ترکی بہ ترکی کا
کسی بھٹی پہ جا بیٹھوں گا میں پیر مغاں ہو کر
تلاش یار کیا اور سیر کیا اے ہم نشیں ہم تو
چلے اور گھر چلے آئے یہاں ہو کر وہاں ہو کر
سخنؔ کی بزم میں نادرؔ اسی کے سر پہ سہرا ہے
رہا جو ہم نوائے بلبل ہندوستاں ہو کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |