کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے
by اسماعیل میرٹھی

کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے

ہمارا گھر ہے یعنی خانۂ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے

چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبہ خانمان و دودماں ہے

سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آب رواں ہے

بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دو دود و خاں ہے

جسے کہتے ہو تم گردون گرداں
فلک چرخ‌ و سپہر و آسماں ہے

وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے

سنا کیجئے حکایت ہے کہانی
کہا کیجئے فسانہ داستاں ہے

مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے

کہو تم جو ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے

حجر پتھر ہے اور قرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے

عصا لاٹھی علم نیزہ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے

نہان و مستتر پوشیدہ مخفی
جو بارز ہے تو ظاہر ہے عیاں ہے

اگر جانو ہو تم ریوڑ کو گلہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے

کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدی ہے تو محرم راز داں ہے

ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے

یہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse