کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
by جگر مراد آبادی

کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا

جب اس رخ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا

یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا

اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودی شوق
آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا

جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
جب آنکھ کھلی قطرہ بھی دریا نظر آیا

قربان تری شان عنایت کے دل و جاں
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا

ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقش کف پا نظر آیا

آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا

ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منور
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse