کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
by قربان علی سالک بیگ

کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے

لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا
حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے

سو ہی جاوے مرے طالع کے برابر آ کر
کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے

ہوں خلش دوست دعا ہے کہ دوا کے بدلے
یا رب اس عہد میں درد دل بیمار بکے

بک کے یوسف نے خریدا ہے وہ رتبہ کہ نہ پوچھ
یہ ہی بکنا ہے تو ہم مفت ہی سو بار بکے

پوشش کعبہ سے کیا کم ہے اگر دل پر ہے
چاہیے میرے گریباں کا ہر اک تار بکے

دیکھ کر اشک مسلسل کو وہ آنسو بھر لائے
لاکھ موتی کے عوض دو در شہوار بکے

جب وہ غارت گر ایماں ہے تو حیرت کیا ہے
دیر میں جبہ بکے کعبے میں زنار بکے

ہے شب وصل عدو اور زمانہ مہجور
کیوں نہ بستر کے لیے گل کی جگہ خار بکے

کہتے ہیں زلف میں رکھنے کو ہیں کچھ دل درکار
طالب اس چیز کے ہیں جو پس دیوار بکے

جامہ اے دست جنوں اور کہاں سے لاؤں
لے رکھوں مول اگر دامن کہسار بکے

اثر گرمی رفتار ہے یہ بھی میرا
کہ بیاباں میں بہت سوکھ کے اشجار بکے

تم ہو ساقی تو عجب کیا ہے کہ میخانے میں
عوض صنعت جم ساغر سرشار بکے

خوف ہے یہ دل بے تاب نہ بر میں آ جائے
ہم نہ لیں مول جو وہ طرۂ طرار بکے

ایک بلبل رہے کس کس کی زلیخائی میں
ڈھیر پھولوں کا جب آ کر سر بازار بکے

بار عصیاں کو اٹھائے ہوئے پھرتا کب تک
مفت ہی ٹال دوں سالکؔ جو یہ انبار بکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse