کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا
by امداد امام اثر

کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا
تو پوچھ مرے دل سے مزہ بے خبری کا

سودا جو گل و لالہ کو ہے جیب دری کا
ادنیٰ یہ شگوفہ ہے نسیم سحری کا

کس نے لب بام آ کے دکھایا رخ روشن
خورشید میں ہے رنگ چراغ سحری کا

اپنی یہ غزل ہے کہ پرستان سخن ہے
پرواز مضامیں میں ہے انداز پری کا

کچھ کم نہیں نازک مرے مضمون کمر سے
شہرہ ہے بجا یار کی نازک کمری کا

اک رات بھی اے ماہ نہ جاگی مری قسمت
سنتا تھا بہت شور دعائے سحری کا

جس نے مجھے آگاہ کیا حال جہاں سے
کیا لطف جمادات کو ہے بے خبری کا

غربت میں ملا لطف کہیں بڑھ کے وطن سے
حاصل جو ہوا تجھ سے مزا ہم سفری کا

اس ماہ کی محفل میں جو ہے قہقہہ زن آج
ہوتا ہے بط مے پہ گماں کبک دری کا

قرآن کہے دیتا ہے کہ ہم حق کی زباں ہیں
ہوتا ہے جدا طور کلام بشری کا

آدم کی تو ماں بھی نہ تھی اے منکر اعجاز
عیسیٰ کو ملا صرف شرف بے پدری کا

سرو قد دلبر کی جو تصویر ہے دل پر
ہم سنگ نہیں لعل عقیق شجری کا

آنکھیں ہیں حسینوں کی ترے سبزۂ رخ پر
کیونکہ نہ ہو میلان غزالوں کو چری کا

چل تو بھی اثرؔ لے کے متاع دل بے تاب
وہ دیکھنے جاتے ہیں تماشا گزری کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse