کب دل شکست گاں سے کر عرض حال آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب دل شکست گاں سے کر عرض حال آیا
by مرزا محمد رفیع سودا

کب دل شکست گاں سے کر عرض حال آیا
ہے بے صدا وہ چینی جس میں کہ بال آیا

سینے سے میں دعا کو لایا جو شب لبوں تک
کہنے لگی اجابت کیدھر خیال آیا

کونین تک ملی تھی جس دل کی مجھ کو قیمت
قسمت کہ یک نگہ پر جا اس کو ڈال آیا

بخشش پہ دو جہاں کے آئی تھی ہمت دہر
لیکن نہ یاں زباں تک حرف سوال آیا

نازاں نہ ہو تو اس پر گر تجھ کو سنگ میں سے
گوہر نکالنے کا کسب و کمال آیا

ارباب فہم آگے وہ صاحب ہنر ہے
کینہ کسی کے دل سے جس کو نکال آیا

دیر خراب میں کل اک مست کی زباں پر
یہ شعر اس جگہ کے کیا حسب حال آیا

اعمال دیکھ تیرے مے شرم سے عرق ہے
اے محتسب تجھے بھی کچھ انفعال آیا

ملنے کا ایک دم بھی یاں ضعف دل ہے مانع
اکتا کے اٹھ گیا وہ تب میں بحال آیا

نخل حیات اپنا گلشن میں باغباں نے
بویا تو تھا ہوس کر لیکن نہ پال آیا

اکسیر ہے تو کیا ہے وہ مشت خاک سوداؔ
خاطر پہ جب کسی کی جس سے ملال آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse