کب تک کریں گے جبر دل ناصبور پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب تک کریں گے جبر دل ناصبور پر
by بیخود دہلوی

کب تک کریں گے جبر دل ناصبور پر
موسیٰ تو جا کے بیٹھ رہے کوہ طور پر

کوئی مجھے بتائے کہ اب کیا جواب دوں
وہ مجھ سے عذر کرتے ہیں میرے قصور پر

طالب ہیں جو ترے انہیں جنت سے کیا غرض
پڑتی نہیں ہے آنکھ شہیدوں کی حور پر

جلوہ دکھائیے ہمیں بس عذر ہو چکا
جلنے کے واسطے نہیں آئے ہیں طور پر

زاہد بھی اس زمانے کے عاشق مزاج ہیں
جیتے ہیں اس کو دیکھ کے مرتے ہیں حور پر

گھر کر گئیں نہ دل میں مری خاکساریاں
نازاں تھے آپ بھی بہت اپنے غرور پر

بخشے گئے نہ ہم سے جو دو چار بادہ خوار
بھنکیں گی مکھیاں ہیں شراب طہور پر

کچھ شوخیوں کے رنگ بھی بیتابیوں میں ہیں
کس کی نظر پڑی ہے دل ناصبور پر

زاہد کی طرح ہم کو بھی جنت کی ہے تلاش
اپنا بھی آ گیا ہے دل اک رشک حور پر

رکھے کہیں یہ شوق رہائی مجھے نہ قید
تڑپا اگر یہیں تو رہیں گے ضرور پر

بیخودؔ نہ ڈھونڈ کوئی وسیلہ نجات کا
یہ منحصر ہے رحمت رب غفور پر


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.