کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
by داغ دہلوی

کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
وہ نادرست بھی جو کہیں کہیے ہاں درست

تھوڑے سے دن بہار کے ہیں کس امید پر
کرتے ہیں اپنے مرغ چمن آشیاں درست

کچھ میں بھی اپنا حال طبیعت بیاں کروں
گر ہو مزاج آپ کا اے مہرباں درست

اس کو درستی دل عاشق سے کیا غرض
جس بد زبان کی نہیں اب تک زباں درست

آنکھوں میں رہ کہ دل میں ٹھہر تیرے واسطے
آراستہ ہر ایک مکاں ہر مکاں درست

ہر روز تازیانہ زلف دراز سے
تو نے بھی دل کو خوب کیا میری جاں درست

آتا ہے سامنے جو وہ غارت گر شکیب
اوسان داغؔ رہتے ہیں اپنے کہاں درست

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse