کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
by تعشق لکھنوی

کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
مرے جذب دل کے بلائے ہوئے ہیں

کجی پر جو افلاک آئے ہوئے ہیں
ان آنکھوں کے شاید سکھائے ہوئے ہیں

کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ
یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں

کیا ہے جو کچھ ذکر مجھ دل جلے کا
پسینہ میں بالکل نہائے ہوئے ہیں

ذرا پھول سے پاؤں میلے نہ ہوں گے
تم آؤ ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں

کہیں خاک بھی اب نہ بیٹھی گی اپنی
کہ ان کی گلی سے اٹھائے ہوئے ہیں

گرے گا زمیں پہ نہ خون شہیداں
عبث آپ دامن اٹھائے ہوے ہیں

فقط پاس ہے ان کے تیر نگہ کا
جو سینہ سے دل کو لگائے ہوئے ہیں

جنازہ مرا دوستو کل اٹھانا
کہ وہ آج مہندی لگائے ہوئے ہیں

انہیں پاس ہے دل ہمارا مقرر
وہی ہم سے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں

جو ہے گھر کے اندر وہی گھر کے باہر
وہ آنکھوں میں دل میں سمائے ہوئے ہیں

میرے بعد جانے کے اتریں گے کیوں کر
یہ کپڑے جو میرے پنہائے ہوئے ہیں

نہ ہو سبزہ رنگوں میں کیوں ان کی شہرت
مرے قتل پر زہر کھائے ہوئے ہیں

مرے خط کے پرزے اڑائے انہوں نے
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں

خدا زلف سے دل جگر کو بچائے
بڑے پیچ میں دونوں آئے ہوئے ہیں

تڑپ کر شب ہجر میں کیوں نہ روؤں
چمکتی ہی برق ابر آئے ہوئے ہیں

تعشقؔ وہ جو چاہیں باتیں سنائیں
سر عجر ہم تو جھکائے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse