کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
by نسیم دہلوی

کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
ہوا سے خاک کو برسوں پریدہ ہونا تھا

اگر تھی دامن جاناں کی آرزو اے دل
تو چند دم کے لیے آب دیدہ ہونا تھا

کسی کے چہرہ پہ ہوتا کسی کے دامن میں
مجھے بھی آنکھ کا اشک چکیدہ ہونا تھا

کبھی نہ خدمت دامن سے سرفراز ہوا
وہ ہاتھ ہوں کہ جسے نا رسیدہ ہونا تھا

کمال بے ادبی سے یہ عرض کرتے ہیں
ہمیں سے اے قد جاناں کشیدہ ہونا تھا

اگر تھی لذت پامال کی ہوس اے دل
بہ شکل سبزہ زمیں پر دمیدہ ہونا تھا

عجب نہ تھا کہ اسے رحم کچھ نہ کچھ آتا
میری امید تجھے ابر دیدہ ہونا تھا

کمال ربط میں ہوتی ہیں سیکڑوں باتیں
نہ اس قدر تمہیں ہم سے کشیدہ ہونا تھا

ترا جمال بنا میں کبھی، کبھی احساں
غرض یہ تھی کہ مجھے برگزیدہ ہونا تھا

کھلی اب آنکھ تو کیا فائدہ نسیمؔ افسوس
نہ سمجھے زیر لحد آرمیدہ ہونا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse