کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے
by برجموہن دتاتریہ کیفی

کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے
ہو وعدہ ایفا کہ ترک الفت یہ روزمرہ کی ٹال کیا ہے

زبان بگڑی ہے آپ ہی کی ہمارا نقصان کیا ہے اس میں
ذرا تمہیں پوچھوں دل سے اپنے بھلا یہ طرز مقال کیا ہے

جو مانگا اک بوسہ میں نے ان سے تو بولے کیا تو سڑی ہوا ہے
ذرا یہ باتیں سنو تو لوگو جواب کیا ہے سوال کیا ہے

انہیں سر رہ اکیلا پا کر یہ بولا چھاتی سے میں لگا کر
کہ اب تو فرما دیں بندہ پرور وصال میں قیل و قال کیا ہے

ہیں ترک الفت میں ہم بھی راضی یہ کہہ دو بے کھٹکے اس صنم سے
بتوں کا اس ہند کی زمیں پر خدا کی رحمت سے کال کیا ہے

کڑا رکھے آدمی جو دل کو تو جھیل لے ہر کڑی کو آساں
بندھی ہوئی ہو جو اپنی ہمت تو کام کوئی محال کیا ہے

یہ کیسی ہیں ٹھنڈی سانسیں کیفیؔ کہیں تو آیا ہے آپ کا دل
یہ منہ نکل آیا کیوں ذرا سا بتائیے تو کہ حال کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse