کبھی لطف زبان خوش بیاں تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی لطف زبان خوش بیاں تھے
by واجد علی شاہ

کبھی لطف زبان خوش بیاں تھے
زمین شعر کے ہم آسماں تھے

لگا ٹھوکر نہ پائے ناز سے تو
کبھی تاج سر ہندوستاں تھے

زمیں پر چرخ دیتا ہے عبث تو
کبھی پیر فلک ہم بھی جواں تھے

زر گل بن گیا نالہ ہمارا
چمن میں بھی ہمیں آتش فشاں تھے

مکیں تھی روح چھوڑا جسم جس دم
کرائے کے یہ سب قصر و مکاں تھے

وہی جنگل ہے اب پر اس سے آگے
چمن تھے گل تھے ہم تھے باغباں تھے

نہیں اب ضبط باقی ناتواں ہوں
مرے آنسو نہایت رازداں تھے

مرے نالوں سے پہنچا قافلہ سب
جرس بے کار مشغول فغاں تھے

جگایا ناتواں بینوں نے ان کو
عبث وہ مائل خواب گراں تھے

دبے زیر زمیں اے چرخ مہ رو
یہاں دو دن کے یہ سب مہماں تھے

عجب موسم میں کٹتی تھی جوانی
چمن تھا اور لطف قصہ خواں تھے

کہاں مجنوں کہاں فرہادؔ و وامقؔ
ہماری موت کے سب نوحہ خواں تھے

سواد لکھنؤ چھوڑا الم میں
یہ اخترؔ بھی غضب کے خوش بیاں تھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.