کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ
by امداد علی بحر

کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ
جلے بھوؤں پہ کرے اپنی مہربانی دھوپ

ہمارے داغ کو جب آفتاب نے دیکھا
ہوا یہ زرد نظر آئے زعفرانی دھوپ

تپ فراق وہ بد ہے چڑھے جو سورج کو
پگھل کے برف کی صورت ہو پانی پانی دھوپ

سفر سقر ہے ہزاروں بلائیں سر پر ہیں
ہے ایک ان میں سے آسیب آسمانی دھوپ

تہہ سحاب رہے آفتاب روز فراق
شعاعوں سے نہ کرے مجھ پہ تیغ رانی دھوپ

کٹے جو رات بھی زخمیٔ ہجر کو تو کیا
ہے مار ڈالنے کو چاندنی کی ثانی دھوپ

رہے شگفتہ ہم اس طرح جیسے آگ کے پھول
کبھی نہ دشت نوردی میں ہم نے پانی دھوپ

سفید بال ہوئے جیسے تیور آتے ہیں
بہت ضعیف کو دیتے ہے سرگرانی دھوپ

ہمیں تو فصل زمستاں بہت خوش آتی ہے
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور وہ سہانی دھوپ

لگائے ابر کا لکا نہ کس طرح چھتری
کرے نہ چاند سے رنگت کو آسمانی دھوپ

عجب نہیں گل رخسار سوسنی ہو جائیں
بہار حسن کو ہے آفت خزانی دھوپ

امیر شال‌ دوشالوں میں گرم راحت و عیش
غریب کے لیے جاڑوں میں زندگانی دھوپ

ذرا سی گرم ہوا میں یہ منہ بناتی ہیں
نہ کر سکے گی گلوں کی مزاج دانی دھوپ

موافقت نہ کبھی سرد و گرم میں ہوگی
ہے چاندنی مری پیری تری جوانی دھوپ

شباب یاد دلاتے ہے سر سفیدی بحرؔ
ہے آفتاب‌ جوانی کی یہ نشانی دھوپ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.