کبھی تو آؤ ہمارے بھی جان کوٹھے پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی تو آؤ ہمارے بھی جان کوٹھے پر
by نظیر اکبر آبادی

کبھی تو آؤ ہمارے بھی جان کوٹھے پر
لیا ہے ہم نے اکیلا مکان کوٹھے پر

کھڑے جو ہوتے ہو تم آن آن کوٹھے پر
کرو گے حسن کی کیا تم دکان کوٹھے پر

تمہیں جو شام کو دیکھا تھا بام پر میں نے
تمام رات رہا میرا دھیان کوٹھے پر

یقیں ہے بلکہ مری جان جب کہ نکلے گی
تو آ رہے گی تمہارے ہی جان کوٹھے پر

مجھے یہ ڈر ہے کسی کی نظر نہ لگ جاوے
پھرو نہ تم کھلے بالوں سے جان کوٹھے پر

بشر تو کیا ہے فرشتے کا جی نکل جاوے
تمہارے حسن کی دیکھ آن بان کوٹھے پر

جھمک دکھا کے ہمیں اور بھی پھنسانا ہے
جبھی تو چڑھتے ہو تم جان جان کوٹھے پر

تمہیں تو کیا ہے ولیکن مری خرابی ہو
کسی کا آن پڑے اب جو دھیان کوٹھے پر

گو چونے کاری میں ہوتی ہے سرخی تو ایسی
کسی کے خون کا یہ ہے نشان کوٹھے پر

یہ آرزو ہے کسی دن تو اپنے دل کا درد
کریں ہم آن کے تم سے بیان کوٹھے پر

لڑاؤ غیر سے آنکھیں کہو ہو ہم سے آہ
کہ تھا ہمیں تو تمہارا ہی ہے دھیان کوٹھے پر

خدا کے واسطے اتنا تو جھوٹ مت بولو
کہیں نہ ٹوٹ پڑے آسمان کوٹھے پر

کمند زلف کی لٹکا کے اس صنم نے نظیرؔ
چڑھا لیا مجھے اپنے ندان کوٹھے پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse