کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
by اسماعیل میرٹھی

کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں

مر چکے جیتے جی خوشا قسمت
اس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں

دوستی اور کسی غرض کے لئے
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں

یا وفا ہی نہ تھی زمانے میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں

کچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں

جس خوشی کو نہ ہو قیام و دوام
غم سے بد تر ہے وہ خوشی ہی نہیں

بندگی کا شعور ہے جب تک
بندہ پرور وہ بندگی ہی نہیں

ایک دو گھونٹ جام وحدت کے
جو نہ پی لے وہ متقی ہی نہیں

کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک
یا مقدر میں اس کے تھی ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse