کباڑ کی کوٹھڑی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کباڑ کی کوٹھڑی
by قاضی عبدالغفار

’’بلاگردان‘‘ صاحب کا یہ قصہ تو کچھ زیادہ عجیب نہیں، لیکن انداز بیان بہت دلچسپ ہے۔ اس لیے فیس داخلہ قبول کرکے صاحب موصوف کو انجمن کی رکنیت میں شامل کیا جاتا ہے۔‘‘

غدر سے پہلے دادا صاحب مرحوم نے وہ مکان بنایا تھا جس میں ہم رہتے ہیں۔۔۔ پرانا ہے مگر بہت مضبوط ہے! جب غدر شروع ہوا تو دادا صاحب ایک بڑے سرکاری عہدہ پر فائز تھے۔ مگر آخر میں انھوں نے پھانسی پائی۔ (کوئی پولیس والا نہ سن لے) الزام یہ تھا کہ انھوں نے ایک بھاگے ہوئے دلی کے شہزادے کی مدد کی تھی۔ وہ بیچارے تو پھانسی پر لٹکے اور ادھر ان کی ساری جائداد اور املاک بحق سرکار ضبط ہوگئی۔ ہمارامکان بھی ضبط ہوگیا۔ دادی بیچاری اس طرح گھر سے نکلیں کہ صرف ایک چادر ان کے سر پر تھی۔

داروگیر کازمانہ گزر گیا۔ دادی ہماری بڑی اولوالعزم عورت تھیں۔ کم عمر ی میں بیوہ ہوکر بھی وہ مصائب سے گھبرانے والی نہ تھیں۔ ڈولی میں بیٹھ کر بڑے صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئی اور جو کچھ کہنا سنا تھا صاف صاف کہا۔ صاحب نئے نئے ضلع میں آئے تھے، انھوں نے جو تحقیقات شروع کی تو ثابت یہ ہوا کہ دادا صاحب نے بے گناہ پھانسی پائی!! عجلت میں پھانسی پر چڑھادیے گئے۔ ۔۔ اس زمانے میں کالے آدمی کی جان کی قیمت صرف اتنی تھی کہ جب یہ حقیقت واضح ہوئی تو سرکار نے بڑا کرم کیا کہ جو کچھ ضبط کیا تھا اس کا نصف واپس کردیا! دادی نے کہا، چلو، بھاگتے بھوت کی لنگوٹی۔ یہی غنیمت ہے۔ دوسال بعد پھر اپنےبچوں کو لے کر گھر آئیں۔۔۔ جس وقت گھر بند ہوا تھا تو اوپر کی منزل پر ایک کوٹھڑی تھی اس میں سارے گھر کا کاٹ کباڑ ڈال دیا گیا تھا۔ کوٹھڑی کا ایک ہی دروازہ تھا اس میں تالا پڑا ہوا تھا۔ گھر میں واپس آنے کے بعد بھی وہ تالا اسی طرح پڑا رہا۔۔۔ یہ سارا قصہ اس زمانے کا ہے جب میں تو کہاں، میری ماں بھی غالباً پیدا نہ ہوئی تھیں!! یہ نہ سمجھیے کہ میں چشم دید بیان کر رہا ہوں!!

میری پیدائش کے پندرہ برس بعد تک اس کوٹھڑی میں بدستور تالا پڑا ہوا تھا۔ ایک گناہ گار کے سینہ کی طرح اس کے اندر روشنی جانے کا بھی کوی راستہ نہ کھلا۔ مجھے یاد ہے کہ ’’دادی‘‘ اماں اس کوٹھڑی کے متعلق عجب عجب قصے سنایا کرتی تھیں۔ میں جب ۱۲برس کا تھا تو دادی اماں کی عمر اسی برس کے قریب تھی۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب غدر میں ہم لوگ اس مکان سے نکالے گئے اور دوبرس تک یہ مکان خالی پڑا رہا تو اس زمانہ میں ایک بہت نیک خیال جن اس کوٹھڑی میں آکر رہنے لگے۔ اکثر صبح کو اُن کے قرآن شریف پڑھنے کی آواز آتی ہے اور مجھ پر تو اس قدر مہربان ہیں کہ جب کبھی میرا دل گرم گرم مٹھائی یا تازے پھل کھانے کو چاہتاہے، فوراً بھیج دیتے ہیں!!۔۔۔ میں بچہ تو تھا لیکن انیسویں صدی عیسوی کا بچہ تھا! یہ قصے سنتا تھا اور دادی اماں کو اس قدر چھیڑتا کہ وہ چڑجاتی تھیں۔۔۔ ’’کیوں دادی اماں، یہ تمہارے دوست جو اوپر کوٹھڑی میں رہتے ہیں مٹھائی تو لاتے ہیں، کیا ہمارے لیے کرکٹ کا ایک بلا نہ لادیں گے؟ اچھی دادی اماں! آپ ذرا ان سے کہیے تو‘‘۔۔۔ ’’کیوں دادی اماں بھلا یہ جن صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے ہیں تو پاخانہ پیشاب بھی اسی کے اندر کرتے ہوں گے۔۔۔ بڑے غلیظ ہیں وہ!‘‘ ۔۔۔ ’’دادی اماں‘‘ کو غصہ آجاتا تھا، کہتی تھیں ’’توبہ توبہ کر لڑکے! وہ خدا کے نیک بندے ہیں،ہمارے مہمان ہیں ایسی باتیں کرتا ہے تو ان کے متعلق۔۔۔‘‘

میں کہتا: ’’دادی اماں! وہ اُڑتے بھی تو ہوں گے۔۔۔ ہم نے سنا ہے کہ سب جن اڑتے ہیں۔۔۔ بھلا ان سے کہیے ایک دن ہم کو اُڑاکر دلی لے چلیں۔۔۔ حضرت سلیمان کی قسم دیجیے گاتو ضرور مان جائیں گے!‘‘

دادی اماں دِق ہوجاتیں تو اپنی لاٹھی اٹھاکر مجھے ڈراتیں۔۔۔ ’’نہیں جائے گا تو، نہیں جائے گا؟ بکے جائے گا، بکے جائے گا؟ اچھا ٹھہر تیرے مولوی صاحب آئیں تو دیکھ میں کیسا کچھ پٹواتی ہوں۔۔۔‘‘

کبھی ’’دادی اماں‘‘ چند چراغ جلاکر ۔۔۔ شام کے وقت۔۔۔ اس کوٹھڑی کے دروازہ پر رکھ دیتیں اور سب سے کہتیں ’’دیکھو بچو اس وقت غل شور نہ ہونے پائے، آج جنات جمع ہیں میلاد شریف کی محفل ہو رہی ہے۔۔۔‘‘

میں کہتا ’’دادی! یہ کیسا میلاد شریف ہے، کوئی آواز تو آتی ہی نہیں! وہ فرماتیں، جا بھاگ! بچوں کو آواز نہیں آیا کرتی!۔۔۔‘‘

ایک رات کو ۔۔۔ جاڑوں کازمانہ تھا۔۔۔ ہمسب دالان میں سو رہے تھے، دالان کے سب دروازے بند تھے دادی اماں کے پلنگ کے پاس ہی میرا پلنگ تھا۔ یکایک میری آنکھ کھلی، یہ معلوم ہوا جیسے کوئی میرے پلنگ پر کودا ہو، ڈرکے مارے میری چیخ نکل گئی، سب لوگ جاگ اٹھے، دیکھا تو ایک سفید رنگ کابلا تھا۔۔۔ معلوم نہیں کدھر سےآگیا۔۔۔ تھا بہت بڑا، بکری کے بچے کے برابر۔۔۔ وہ تو ہم لوگوں کے جاگنے کے بعد کسی طرف سے نکل گیا۔ مگر دادی اماں نے صبح تک کسی کو اپنی باتوں سے سونے نہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اوپر والے جن اس وقت بلے کی صورت میں آئے۔ معلوم نہیں مجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے؟ بار بار دادی اماں فرماتی تھیں!! غرض یہ کہ صبح سے دوپہر تک سارے محلہ میں دادی اماں نے خبر کردی کہ اب تو کوٹھڑی والے جن خود ہی ان کے پاس آنے لگے ہیں!! میں کہتا دادی اماں آپ نے اس وقت ان کی دم نہ پکڑلی، جانے کیوں دیا؟ وہ مجھے جھڑک دیتیں ’’چپ، بدتمیز!‘‘ ۔۔۔جن صاحب کے آنے جانے کاسلسلہ بھی عرصہ تک جاری رہا۔

ایک رات کو میری ایک پھوپھی جو اسی دالان میں سو رہی تھیں، سوتےسوتے کسی ضرورت سےاٹھیں تو انہوں نے دیکھا کہ دادی اماں اپنے پلنگ پر نہیں ہیں۔ باہر نکلیں تو دیکھا کہ وہ صحن میں کھڑی بلے سے کھیل رہی ہیں۔ دادی اماں نے کہا کہراتبلے نے ان کو سونے نہ دیا تو ایک دفعہ غصہ میں آکر وہ اس کی کمر پر سوار ہوگئیں، بلا ان کو لے کر بھاگا۔۔۔ صحن سےاس نے جست کی تو سامنے کی دیوار پر پہنچا تو سامنے کی دیورا سے جست کی تو کوٹھڑی کی چھت پر پہنچ گیا۔۔۔ وہاں سے جست کی تو پھر صحن میں۔۔۔ اور دادی اماں برابر اس کی کمر پر جمی رہیں!! ۔۔۔ میں نے جو یہ قصہ سناتو خوب تالیاں بجائیں ۔۔۔ دادی اماں بہت ناراض ہوئیں، مگرمیں کئی راتیں اس فکر میں جاگتا رہاکہ اگر سفید بلا آجائے تو میں بھی ضرور اس کی کمر پر بیٹھ ہی توجاؤں!!

’’دادی اماں! تم ان سے کہو‘‘ میں نے کہا کہ روز ہمیں سواری دے جایا کریں، آہا ہا! کیا مزے کی سواری ہوگی۔۔۔ اس آہا ہا کے جواب میں دادی اماں کا ڈنڈا میری کمر کی طرف آیا ۔۔۔ اور میں بھاگا۔۔۔

غرض کہ جب تک دادی اماں زندہ ہیں وہ ضرور ’’جن صاحب‘‘ کا کوئی نہ کوئی نیا قصہ ضرور سنایا کرتیں اورمیں ضرورکوئی نہ کوئی فقرہ چست کرتا۔ کبھی کبھی ایک دو ڈنڈے بھی کھاتا۔ پھر میں اسکول میں داخل ہوگیا اور چند ہی روز بعد ’’دادی اماں‘‘ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سے ’’جن صاحب‘‘ بھی غائب ہوگئے۔ کم از کم کوٹھری میں ان کی موجودگی کے آثار نظر نہ آتے تھے۔ گرم گرم مٹھائی تھی نہ سفید بلاتھا نہ قرآن شریف پڑھنے کی آوازتھی۔ ممکن ہے کہ وہ دادی اماں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئے ہوں۔

بچپن کی ناسمجھی نوجوانی کی شرارتوں میں بدل گئی۔ میں اسکول سے فارغ ہوکر کالج میں داخل ہوا۔ جوانی دیوانی ہونےلگی۔ والد نے جو یہ رنگ دیکھا تو میری شادی کااہتمام شروع کردیا۔ رشتہ بچپن ہی سے قائم ہوچکاتھا۔ میری منگنی اس وقت ہوگئی تھی جب میں ۵برس کا اور میری بیوی صرف ۲برس کی تھی! غرض یہ کہ میں نے کچھ انکار بھی کیا، مگرکون سنتا ہے، پکڑ دھکڑ کے یہ بیل آخر کارزندگی کے ہل میں جوت ہی دیا گیا۔۔۔ ہمارا خاندان تھا۔ اس لیے شادی بہت سادہ اور شرعی قسم کی ہوئی۔ شام کو بارات گئی۔ شب بھر ہم سسرال میں پڑے رہے، دوسرے دن شام تک بیوی کو لے کر گھر آئے ۔۔۔ لیکن واقعات کے سلسلہ کو توڑ کر، پہلے اس کوٹھری کے متعلق تھوڑا سا قصہ بیان کردوں۔

جب شادی کااہتمام شروع ہوا تو والدہ سے میں نے کہا کہ زنانہ مکان کی بالائی منزل پر میں اپنے لیے ایک ہوادار کمرہ بنوانا چاہتا ہوں اور کمرہ کے لیے بہترین جگہ وہی ہے جہاں وہ پرانی کوٹھری ہے۔ والد نے فرمایا کہ بیٹا! تمہاری دادی نےکبھی اس کوٹھری کے تالے کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ ان کے بعد بھی میں نے اس کوٹھری کو بدستور بند چھوڑدیا۔ بہتر ہو کہ اس کو یوں ہی چھوڑدو اور کسی اور طرف انے لیے کمرہ بنوالو۔ میں نے کہا، اب تو یہ سب باتیں فضول ہیں۔ اگر کبھی کوٹھری میں کوئی جن یا بھوت تھا بھی تو وہ بھی اب باقی نہیں، کیا فائدہ کہ کوٹھری کو بند رکھاجائے اور اس قدر ہوادار موقع کو چھوڑ کر دوسری طرف کمرہ بنایا جائے ۔۔۔ والد خاموش ہوگئے ۔۔۔ وہ انیسویں صدی عیسوی کے بیٹے سے اختلاف ذرا کم ہی کیا کرتے تھے۔ القصہ کوٹھری کا دروازہ کھول دیا گ یا۔ غدر سے پہلے کا کاٹ کباڑ۔۔۔ ٹوٹے ہوئے پلنگ، بکس، پالنے، مٹی کے گھڑے اورخدا جانے کیا کیا۔۔۔ پچاس برس کی گرد سے ڈھکاہوا سامان وہاں سے نکالا گیا، دیواریں گرادی گئیں اور اسی جگہ نیا کمرہ تعمیر ہوگیا۔

میری ازدواجی زندگی کی یہ پہلی شام تھی۔ وہ شام جس کے متعلق شاعر گیت گاتے ہیں! دلہن اسی کمرہ میں بٹھائی گئی تھی، میری بہنیں اس کے پاس بیٹھی تھیں۔ کمرہ میں پرانی وضع کی ہانڈیاں لٹک رہی تھیں، دیواروں پر دیوار گیر فانوس لگے ہوئے تھے۔ اسی منزل پر ایک دوسراکمرہ میری نشست گاہ تھا۔ مغرب کے وقت مجھے وہاں سے بلایا گیا اور کہا گیا کہ ان فانوسوں اور ہانڈیوں کی مومبتیاں روشن کردوں۔ دلہن ایک چاندی کے پلنگ پر سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے پلنگ کے پاس ایک کرسی رکھ کر اوپر چڑھا تاکہ ہانڈی کی بتی کو روشن کردوں۔ دیا سلائی جلا کر میں نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دفعتاً یہ معلوم ہوا کہ کسی نے میرے پاؤں کے نیچے سے کرسی کو کھینچ لیا اور میں بے قابو ہوکر دلہن کے پلنگ پر گرا۔۔۔ کچھ ہوں ہی چوٹ بھی آئی اور خیال یہ ہوا کہ کسی بہن نے شرارت کر کے مجھے گرایا۔ ایک شریر بہن۔۔۔ خدا مغفرت کرے۔۔۔ ہنسنے لگی۔ ’’واہ بھائی واہ! اس قدر بے صبری، تمہیں اس پلنگ پر بیٹھنےسے منع کس نے کیا تھا جو یہ بہانہ نکالا۔‘‘ اب تو یقین ہوگیا کہ شرات کی گئی۔۔۔ پھر کسی پر چڑھا او رپھر دیا سلائی جلاکر موم بتی جلانے کا ارادہ کیا۔۔۔ اور پھر وہی حشر ہوا آیا، اس دفعہ کچھ چوٹ بھی زیادہ لگی۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ کرسی بدستور اپنی جگہ پر موجود تھی۔ حالانکہ مجھے صاف یہ محسوس ہوا تھا کہ کرسی ہٹائی گئی۔

’’یہ کیا بے موقع مذاق ہے؟‘‘ میں نے بگڑکر کہا۔۔۔ میری بہنوں نے قسمیں کھائیں کہ انہوں نے کوئی شرارت نہیں کی۔ پھر میں کرسی پر چڑھا، دیا سلائی جلاکر ہاتھ میں نے بتی کی طرف بڑھایا لیکن نیچے کی طرف بھی دیکھتا رہا۔۔۔ سب لڑکیاں کرسی سے کافی فاصلہ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ مگر پھر میں گرا اور اس دفعہ بالکل دلہن کےاوپر!۔۔۔ جھلاکر میں نے دیاسلائی کی ڈبیا پھینک دی اور باہر چلا گیا۔

اسی شب کو ۹ بجے کےقریب میں پھر اندر گیا، میری بہنیں جا چکی تھیں۔ میری بیوی کے پاس صرف ایک ماما بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ بھی اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا اور ایک دروازہ کے پاس آرام کرسی بچھاکر حقہ پینے لگا۔ گلابی جاڑوں کا موسم تھا۔ کمرہ کے تین دروازے تھے وہ بند تھے۔ کمرہ کے سامنے غسل خانہ تھا، میری بیوی غسل خانہ جانےکے لیے اٹھیں اور میری کرسی کے سامنےسے گزر کر باہر چلی گئیں، چندمنٹ بعد وہواپس آئیں تو میں نے ان سےکہا کہ دروازہ بند کرتی آؤ۔ انہوں نے چوکھٹ سے گزر کر بغیر منہ موڑے ایک ہاتھ سے کواڑ بند کردیا اور ساتھ ایک قدم آگے بڑھیں۔ اگر وہ ایک قدم آگے نہ بڑھ گئیں ہوتیں تو معلوم نہیں کس قدر زخمی ہوتیں، اس لیے کہ کواڑ بند ہوتے ہی یہ معلوم ہوا کہ گویا باہر سے کسی نے دونوں کواڑوں پر پوری قوت سے ایک لات ماری، اور کواڑ دفعتاً کھل گئے۔

خیریت گزری کہ میری بیوی چشم و زن پہلے اُن کی زد سےنکل چکی تھیں!۔۔۔ پھر وہ دھڑاکے کی آواز۔۔۔ سارا مکان گونج گیا۔۔۔ میں گھبرا کر اٹھا، سمجھا کہ آندھی کا کوئی جھونکا آیا۔ آسمان کی طرف دیکھا تو بالکل صاف تھا۔ چاندنی کھلی ہوئی تھی۔ سامنے کی چھت بہت وسیع تھی۔ خیال آیا کہ شاید نیچے کی منزل سے کسی شریر لڑکی نے آکر یہ مذاق کیا ہو۔۔۔ لیکن زینہ اس قدر دور تھا۔۔۔ اور بالکل سامنے کہ کتنا ہی تیز کوئی آتا جاتا چھپنا مشکل تھا اور پھر اس کھلی ہوئی چانی میں! چھت پر ایک چکر لگاکر میں واپس آیا۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔۔۔ بہر حال کواڑ بندکرکے اور ۱۱ بجےکے قریب سوگیا۔۔۔ میری آنکھ چھپکے شاید دس پندہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ پھر دروازہ پٹنا شروع ہوا۔ گھبراکر اٹھا، دروازہ کھولا، باہر گیا۔ ہر طرف دیکھا۔ چاندنی کھلی ہوئی تھی۔ ساری چھت صاف تھی، ہوا کا نام نہ تھا۔ کوئی ایسا راستہ نہ تھا کہ غیر شخص آسکتا، زینہ کا دروازہ میں نے پہلے ہی اندر سے بند کرلیا تھا، وہ بدستور بند تھا۔۔۔ پھر سوگیا، ذرا آنکھ لگی تھی کہ پھر کواڑ پٹنے شروع ہوئے۔ پھر اٹھا، پھر سویا، پھر جاگا، رات بھر اسی طرح چوکیداری کرتے گزری، جب تک جاگتا رہتا تھا کوئی کھٹکا نہ ہوتا تھا۔ جہاں آنکھ لگی اور کواڑ پٹنے شروع ہوئے! ساری رات تو اسی طرح گزر گئی، بیوی سےمیں نے منع کردیا کہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کریں۔

دوسرے دن کمرہ کے باہر برآمدہ میں، دروازہ کے پاس دو کتے باندھے گئے۔ زینہ کا دروازہ بند کرکے تالا ڈالا گیا۔ بارہ بجے تک میں بیٹھا ہوا بیوی سے باتیں کرتا رہا۔۔۔ وہ ڈر تو بہت رہی تھیں لیکن اپنا خوف ظاہر نہ ہونے دیتی تھیں۔ باتیں کرتے کرتے ہم لوگ سوگئے۔۔۔ پندرہ ہی منٹ کے بعد پھر کواڑ پٹنے شروع ہوگئے اور یہی حال رات بھر رہا۔ کتے دروازہ کے سامنے بیٹھے تھے اور صرف اسی وقت بھونکتے تھے جب کواڑ پٹنے کی آواز شروع ہوتی تھی! یقیناً وہ کسی کو دروازہ کے پاس آتا نہ دیکھتے تھے۔۔۔ پھر یہ معمہ کیا تھا؟

ایک دن، دو دن، چار دن۔۔۔ ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ رات کی نیند حرام ہوگئی۔ میں نے اور میری بیوی نےبہت اس قصہ کو چھپایا لیکن کہاں تک، بہنوں تک بات پہنچی، پھر والدہ کو معلوم ہوا، پھر والد کے کان تک سارا قصہ پہنچا او رہوتے ہوتے ہماری ساس کو خبر لگی۔۔۔ وہ بے چاری پرانے زمانہ کی بری بی، سنتے ہی ڈولی پر چڑھ کر دوڑیں۔۔۔ سارے گھر میں قیامت آگئی۔

’’غضب خدا کا! پہلے دن سے یہ ظلم ہو رہا ہے میری بچی کو مار ڈالنے کا ارادہ ہے کچھ؟ اور یہ میاں لڑکے تو پاگل معلوم ہوتے ہیں، مجھے کیا خبر تھی کہ داماد پاگل ملا ہے۔ بند کرو، اس کمرہ کو، صاحبزادے نیچے کی منزل میں رہنا چاہیں تو رہیں نہیں تو میں اپنی بچی کو لیے جاتی ہوں۔ کیا کہا؟ نیچے تکلیف ہوگی؟ کیا تکلیف ہوگی؟ تمہارے باپ دادا سب یہیں رہے، تم یہیں پیدا ہوئے، یہیں پرورش پائی۔ ہمیشہ کمرہ پر ہی تو رہا کرتے تھے گویا!۔۔۔ چلو جھک جھک نہ کرو ۔۔۔ وہیں رہوگے تو رہو، میں تو اپنی بچی کو لیے جاتی ہوں، ۔۔۔ اللہ بچائےآج کل لڑکوں سے۔۔۔ دیدہ کی صفائی تو دیکھو ۔۔۔ جنات سے مقابلہ کریں گے یہ! اپنی دادی کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے۔ اس وقت تو میاں بالشت ہی بھر کے تھے۔۔۔ اب مجھ سے دل لگی کرنےلگے!۔۔۔ جو تمہارے جی میں آئے کرو۔۔۔‘‘

ایک لمبا چوڑا لیکچر دے کر وہ تو میری کولے کو گھر چلی گئیں۔ اب اماں باوا کی یورش مجھ پر شروع ہوئی۔۔۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا سخت ترین مقابلہ ہوا۔ مگر میں نےکسی کی نہ سنی۔ تنہا بھی وہیں سویا۔۔۔ اتنا تو ہوا کہ اباجان نے بغیر میری اطلاع کے دونوکر برابر کی چھت پر بٹھا دیا۔ لیکن رات کی دھڑادھڑ کو وہ بھی نہ روک سکے، سلسلہ برابر جاری رہا۔۔۔ میں بھی اپنے سرہانے طلسم ہوشربا اور رینالڈس کے ناول رکھ کر لیٹتا تھا اور تین چار بجے صبح تک پڑھتا تھا۔ اس لیے صبح کے قریب جب آنکھ لگتی تھی تو ایک دو دفعہ سے زیادہ کواڑ پٹنے کا موقع نہ آتا تھا۔ اس طرح دوہفتے گزرے ایک دن میں نے کہا چھوڑو میں نہیں سوتا کمرہ میں۔ کواڑ کھول دو اور دروازہ کے سامنے برآمدہ میں بستر بچھا۔۔۔ وہ شب امن سے گزری، اس کے بعد کبھی یہ سلسلہ جاری نہ ہوا۔ بلکہ میں جب پھر اندر سونے لگا اور تب بھی وہ واقعہ پیش نہ آیا۔ ساس صاحبہ کو جب کافی اطمینان ہوگیا تو انہوں نے بھی بہت سے تعویذ پہناکر اور بہت فلیتے کمرہ میں جلانے کے لیے ساتھ کرکے میری بیوی کو بھیج دیا۔ ۱۸ برس رتک ہم اس کمرہ میں رہے، گرمی، جاڑا، برسات تمام موسم وہیں گزرتے تھے، میرے بچے بھی وہیں رہتے تھے۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ دادی اماں کے وہ روحانی دوست ناراض ہوکر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

اب یہ نہ پوچھیے کہ میری رائے کیا ہے اور اس سارے واقعہ کی اصلیت میں کیا سمجھتا ہوں! جنات کے متعلق بدعقیدہ میں اب بھی ہوں۔ اب بھی میں ان باتوں کو ڈھکوسلا ہی سمجھتا ہوں لیکن اگرآپ مجھ سے یہ دریافت کریں کہ آخر دو ہفتے تک میرے کواڑ کون پیٹا کرتا تھا تو میں جواب کچھ نہ دے سکوں گا، البتہ آپ سے کہوں کہ جدید روحانیت کے یورپین ماہرین سے مشروہ کیجیے۔ بغیر یورپین ماہرین کے مشورہ کے اس الجھٹے کا بھی۔۔۔ سلجھنا مشکل ہے! تعلیم یافتہ متمدن اور ’’روشن خیال‘‘ آدمی ہوں۔۔۔ علم و سائنس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ جنات ونات سب پرانی بوڑھیوں کے ڈھکوسلے ہیں۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse