کام اگر حسب مدعا نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
by اسماعیل میرٹھی

کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا برا نہ ہوا

خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا

سب جتایا کئے نیاز قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا

رخش ایام کو قرار کہاں
ادھر آیا ادھر روانہ ہوا

کیا کھلے جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے جو کبھی جدا نہ ہوا

سخت فتنہ جہان میں اٹھتا
کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا

جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا

تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا

رہرو مسلک توکل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.