کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
Appearance
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا برا نہ ہوا
خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا
سب جتایا کئے نیاز قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
رخش ایام کو قرار کہاں
ادھر آیا ادھر روانہ ہوا
کیا کھلے جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے جو کبھی جدا نہ ہوا
سخت فتنہ جہان میں اٹھتا
کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا
جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
رہرو مسلک توکل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |