کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
by جگر مراد آبادی

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا

ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا

ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم
پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا

اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا

ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے مجھ کو پیار آ ہی گیا

درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتاً پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا

دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا

جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse