کالی کالی گھٹا برستی ہے
Appearance
کالی کالی گھٹا برستی ہے
آج کیا لطف مے پرستی ہے
خوش لگے دل کو کیوں نہ ویرانہ
عاشقوں کی یہی تو بستی ہے
آج محفل میں یہ خیال رہے
کس کی جانب سے پیش دستی ہے
جب کہ اس کا بھی ہے مآل یہی
مے پرستی بھی فاقہ مستی ہے
ایک تیر نظر ادھر مارو
دل ترستا ہے جاں ترستی ہے
بوسہ ملتا ہے جان کے بدلے
مشرقیؔ خوب جنس سستی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |