کاغذ کی ناؤ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کاغذ کی ناؤ
by افسر میرٹھی

دیکھو اماں کیسی اچھی ہے مری کاغذ کی ناؤ
لے چلا ہے ساتھ اس کو مینہ کے پانی کا بہاؤ
بند کر دیتا نہ میں سب مہریوں کے منہ اگر
کس طرح پانی سے بھر جاتا بھلا پھر سارا گھر
میری کشتی تم ذرا دیکھو تو اک چکر میں ہے
گو کہ دریا میں ہے لیکن پھر بھی گھر کے گھر میں ہے
مچھلیاں اس واسطے آنگن کے دریا میں نہیں
ڈر کے میری ناؤ سے ساری کی ساری چھپ گئیں
اچھی اماں اب مجھے دریا میں جانے دو ذرا
اپنی کشتی کو مجھے خود ہی چلانے دو ذرا
جاؤں گا میں جب کشتی سنبھالے دیکھنا
تم کہو گی میرے ننھے ناؤ والے دیکھنا
میں کہوں گا میری اماں کس طرح دیکھوں ادھر
کیا کروں گا ناؤ رستے سے بھٹک جائے اگر
دھیان بٹ جائے تو کشتی ڈوب جائے گی ضرور
بیٹھ کر کس چیز میں پھر جاؤں گی میں دور دور

اچھی اماں اب مجھے دریا میں جانے دو ذرا
اپنی کشتی کو مجھے خود ہی چلانے دو ذرا
دیکھ لینا تم کہ اس دریا میں ڈوبوں گا نہ میں
اچھی اماں دیر تک پانی میں کھیلوں گا نہ میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse