کاش مقبول ہو دعائے عدو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کاش مقبول ہو دعائے عدو
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

کاش مقبول ہو دعائے عدو
کیا کروں وہ بھی مستجاب نہیں

اب تو اس چشم تر کا چرچا ہے
ذکر دریا نہیں سحاب نہیں

جمع طوفان و چشم تر مصرف
اب مصارف کا کچھ حساب نہیں

دھو دیا سب کو دیدۂ تر نے
وہ نہیں درس وہ کتاب نہیں

عشق بازی کا منہ چڑانا ہے
اور وہ موسم نہیں شباب نہیں

تیری آنکھوں کے دور میں کیا کیا
سحر رسوا نہیں خراب نہیں

مختصر حال چشم و دل یہ ہے
اس کو آرام اس کو خواب نہیں

جو سراپائے یار آزردہؔ
تیرے دیواں کا انتخاب نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse