کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
دل نہ تھا تو تنگئ فرصت کبھی ایسی نہ تھی

یاس سے ویرانئ حسرت کبھی ایسی نہ تھی
دل میں سناٹا نہ تھا وحشت کبھی ایسی نہ تھی

ان کے وعدہ پر ہمیں جینا پڑا ہے حشر تک
ورنہ طولانی شب فرقت کبھی ایسی نہ تھی

دیکھ ڈالے زندگی میں وصل و فرقت کے طلسم
غم کبھی ایسا نہ تھا راحت کبھی ایسی نہ تھی

آپ نے بیمار پرسی کی تو جینا ہے وبال
ورنہ مرنے کی مجھے حسرت کبھی ایسی نہ تھی

بامزا ہے کس قدر انکار ان کا وصل میں
تجھ میں اے خون جگر لذت کبھی ایسی نہ تھی

دل کو کیا سمجھا دیا نومیدیٔ جاوید نے
پردہ دار غم شب فرقت کبھی ایسی نہ تھی

زندگی کی کش مکش سے مر کے پائی کچھ نجات
اس سے پہلے اے نظرؔ فرصت کبھی ایسی نہ تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse