کئی ستارے چمک رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کئی ستارے چمک رہے ہیں
by میراجی

لرز لرز کر دمک رہے ہیں
مگر جب آئے گا دن کا چیتا
اور ان ستاروں کا وقت بیتا
تو آسمان کے نکیلے جگنو
بنیں گے پل میں ڈھلکتے آنسو
سحر کے پردے میں جا چھپیں گے
میں اور تو آج ہیں اکٹھے
سنا رہی ہے تری جوانی
مجھے مرے عشق کی کہانی
مگر ہے اک خوف سا فضا میں
ہے ایک لرزش سی اس ہوا میں
ستارے اب ٹمٹما رہے ہیں
خزاں کے آثار چھا رہے ہیں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے
کہ اب ستاروں کا وقت بیتا
بس اب تو آئے گا دن کا چیتا
اب آسمان کے نکیلے جگنو
یہ دست انجم کے پیارے آہو
سحر کے پردے میں جا چھپیں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse