کئی دن سے ہم بھی ہیں دیکھے اسے ہم پہ ناز و عتاب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کئی دن سے ہم بھی ہیں دیکھے اسے ہم پہ ناز و عتاب ہے
by نظیر اکبر آبادی

کئی دن سے ہم بھی ہیں دیکھے اسے ہم پہ ناز و عتاب ہے
کبھی منہ بنا کبھی رخ پھرا کبھی چیں جبیں پہ شتاب ہے

ہے پھنسا جو زلف میں اس کے دل تو بتا دیں کیا تجھے ہم نشیں
کبھی بل سے بل کبھی خم سے خم کبھی تاب چین سے تاب ہے

وہ خفا جو ہم سے ہے غنچہ لب تو ہماری شکل یہ ہے کہ اب
کبھی رنج دل کبھی آہ جاں کبھی چشم غم سے پر آب ہے

نہیں آتا وہ جو ادھر ذرا ہمیں انتظار میں اس کے یاں
کبھی جھانکنا کبھی تاکنا کبھی بے کلی پئے خواب ہے

وہ نظیرؔ ہم سے جو آ ملا تو پھر اس گھڑی سے یہ عیش ہیں
کبھی رخ پہ رخ کبھی لب پہ لب کبھی ساغر مئے ناب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse