ڈھونڈ لیتا جو انہیں ڈھونڈھنے والا ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھونڈ لیتا جو انہیں ڈھونڈھنے والا ہوتا
by شاہ اکبر داناپوری

ڈھونڈ لیتا جو انہیں ڈھونڈھنے والا ہوتا
دیکھ لیتا جو کوئی دیکھنے والا ہوتا

مجھ کو اس چاہ میں کچھ لطف دوبالا ہوتا
کاش ناصح ہی ترا چاہنے والا ہوتا

ہم بھی مرتے تری حوروں پہ مگر اے زاہد
ان بتوں سے جو کچھ انداز نرالا ہوتا

کیا گزرتی ہے ترے دل پہ بتا تو کمبخت
ہائے اتنا ہی کوئی پوچھنے والا ہوتا

میرے گھر پر سے ملیں آ کے بلائیں کتنی
تم نے جب تک مجھے بوسوں ہی پہ ٹالا ہوتا

اے غم یار مجھے تو نے گھلا کر کھایا
پہلے کھاتا تو ترے منہ کا نوالا ہوتا

آپ نے زلف کے عقدے تو بہت کھلوائے
میرا آسان سا اک کام نکالا ہوتا

تم نے کچھ عشق کا انجام نہ سوچا اکبرؔ
کیوں بگڑتی جو طبیعت کو سنبھالا ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse