ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
سچ اگر پوچھو تو سچا آشنا ملتا نہیں

آپ کے جو یار بنتے ہیں وہ ہیں مطلب کے یار
اس زمانے میں محب با صفا ملتا نہیں

سیرتوں میں بھی ہے انسانوں کی باہم اختلاف
ایک سے صورت میں جیسے دوسرا ملتا نہیں

دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں

ہیں پریشاں اور حیراں جائیں تو جائیں کدھر
راہ گم گشتوں کو منزل کا پتا ملتا نہیں

بوالہوس دل کی طرح ہر رنگ ہے صرف شکست
لالہ و گل میں بھی رنگ دیر پا ملتا نہیں

ہے یہاں تو سیر گلزار خیال نوع بہ نوع
ہاں اسیرو ہم کو مضموں کچھ نیا ملتا نہیں

روئیے رونا زمانے کا تو کیفیؔ کس کے پاس
کوئی اس دل کے سوا درد آشنا ملتا نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse