ڈھونڈھتا حق کو در بدر ہے تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھونڈھتا حق کو در بدر ہے تو  (1926) 
by یاسین علی خاں مرکز

ڈھونڈھتا حق کو در بدر ہے تو
وائے اپنے سے بے خبر ہے تو

شان حق آشکار ہے تن سے
موجد کلّ خیر و شر ہے تو

ایک میں کیا وجود جملہ ظہور
کل میں خود آپ با اثر ہے تو

قدرت کاملہ کو غور تو کر
بحر یکتائی کا گہر ہے تو

میٹ اپنی خودی خدا کو پا
نفع حاصل ہو کیا اگر ہے تو

مقتدر آپ ہر سبب کا ہے
اس لئے ہو گیا بشر ہے تو

خیر و شر کے حجاب میں کب تک
ظلمت کفر کا سحر ہے تو

تیری ہی شان کل ہویدا ہے
بندہ کہتا ہے کیوں کدھر ہے تو

آپ ہر شے میں جلوہ فرما ہیں
بے خبر کیا ہے با خبر ہے تو

مجھ پہ الزام آ نہیں سکتا
ہر طرح سے ادھر ادھر ہے تو

کوئی کچھ قلب کیا کرے تجھ کو
بے غل و غش وہ صاف زر ہے تو

کہہ رہا ہے ہمیشہ اِنی انا
جملہ اعمیٰ کا راہبر ہے تو

جو ہے منظور ہو رہا وہی
کس نتیجہ کا منتظر ہے تو

بالیقیں حق کی شان ہے تیری
مختصر یہ ہے مختصر ہے تو

نام تیرا خدا نما ہے حجاب
دیدۂ دید کا بصر ہے تو

کوئی پاتا نہیں تجھے مرکزؔ
دو بہ دو آپ جلوہ گر ہے تو

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse