ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
by میراجی

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
میراجیؔ دانا تو نہیں ہے عاشق ہے سودائی ہے

صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جھوم اٹھی ہے کلی کلی لہرائی ہے

جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے
بالک یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سجھائی ہے

دھیان کی دھن ہے امر گیت پہچان لیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے

بیٹھے ہیں پھلواری میں دیکھیں کب کلیاں کھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے کس نے اتنی راہ دکھائی ہے

جب دل گھبرا جاتا ہے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

امیدیں ارمان سبھی جل دے جائیں گے جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے جان کے بات بڑھائی ہے

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے کلیاں چٹکیں پھول بنیں
پھول پھول یہ جھوم کے بولا کلیو تم کو بدھائی ہے

آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کس کا بیاہ رچا ہے دیکھو ڈھولک ہے شہنائی ہے

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندر دھوم مچی ہے جگ میں اداسی چھائی ہے

لہروں سے لہریں ملتی ہیں ساگر امڈا آتا ہے
منجدھار میں بسنے والے نے ساحل پر جوت جگائی ہے

آخری بات سنائے کوئی آخری بات سنیں کیوں ہم نے
اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse