ڈپٹی صاحب کا کتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈپٹی صاحب کا کتا
by قاضی عبدالغفار

داروغہ جی محلہ کی سڑک پر خراماں خراما تشریف لے جارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بید کا ٹکرا ہے، جس کی دم میں چمڑےکے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس کواس طرح ہلاتے اور گھماتے چلے جاتے ہیں کہ چمڑے کے ٹکڑوں کا ایک پھول ہوا میں بن جاتا ہے۔ سیاہ فام چہرہ پر گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہوئے موٹے موٹے ہونٹ ہیں۔ جس کی گرفت میں ایک سلگتا ہوا سگریٹ ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے وہ ہر طرف دیکھتے جاتے ہیں۔۔۔ گویا محلہ کے ہر در و دیوار پر اور ہر دروازے میں دو نہیں ایک چھپا ہوا چور نظر آنے والا ہے۔

سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے داروغہ جی کو دیکھ دیکھ کر اپنے گھروں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے!

محلہ کی پنہیاریوں نے راستہ چھوڑ کر اپنے گھونگھٹ لمبے کرلیے!۔۔۔ اس طرح داروغہ جی محلہ میں شام کا پہرا لگا رہے ہیں!!

’’کیں بے، دیکھتا نہیں، سالے۔‘‘

بھنگی نے جھاڑو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔ داروغہ جی نے جیب سے رومال نکال کر اپنی ناک کو لگایا۔ تاکہ سڑک پر بھنگی کی جھاڑو سے جو خاک اڑ رہی تھی۔ وہ ان کی سریع الحس ناک میں داخل نہ ہونے پائے۔

‘‘خاں صاحب! ہم دیکھتے ہیں تمہارے ہاں اب تاش بہت کھیلا جاتا ہے۔‘‘ خان صاحب معہ اپنے احباب کے گھبراکر چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے:

’’آئیے داروغہ جی! آئیے، حقہ تو پیتے جائیے۔‘‘

’’کیوں جی! گیہوں کا بھاؤ پھر تم نے بڑھادیا۔‘‘ بنیا دوکان سے اترکر سڑک پر آگیا۔

’’نہیں تو ہجور!‘‘ اس نے گڑگڑاکر کہا۔ ’’بھلا سرکاروں کے لیے بھاؤ تاؤ کیا۔‘‘

’’ادھر آبے۔‘‘ داروغہ جی نے ایک لونڈے کو گائیں ہکائے لیے جارہا تھا، بلایا۔ ’’دیکھ! تیرے گھر تازہ مکھن ہو تو اپنی ماں سے کہنا ایک پاؤ بھر تھانہ میں پہنچا دے۔‘‘

داروغہ جی اپنے چمڑے کا ٹکڑا گھماتے ہوئے چلے جارہے ہیں۔ نان بائی کی دوکان کے سامنے ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ کیا جانے کیا سمجھ کر وہ بھوکنےلگا۔

’’کیوں بے!‘‘ داروغہ جی کتے سے مخاطب ہوئے۔ ’’بہت دانت نکالتا ہے۔‘‘ ایک چابک لگاکر:

’’اور لےگا؟‘‘ محلہ والوں کی طرف مخاطب ہوکر۔ ’’کیوں جی۔ تم لوگ ان کٹکھنے کتوں کو مارتے بھی نہیں۔ عجیب لوگ ہیں اس محلے کے۔ کیوں جی! معلوم ہے قانون کیا کہتا ہے؟ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو فوراً مار دیا جائے۔۔۔ مارنا تو ذرا دولاتیں اس مردود کے! بھونکے جاتا ہے! بھونکے جاتا ہے۔‘‘

دو ایک آدمی دوڑ پڑے۔ کتے کا پٹا پکڑ کر اس کو دھپانا شروع کیا۔ کتا ٹیاؤں ٹیاؤں کر رہاہے۔ داروغہ جی نے اپنا چمڑے کا ٹکرا بغل میں اور سگریٹ منہ سےنکال کر انگلیوں میں دبالیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں روشنی بڑھ گئی ہے!

’’مارو سالے کو! بہت گلا پھاڑ تا ہے۔ موذی ہے سالا!‘‘

اب تو محلے کے بچے بوڑھے جوان سب ہی سمٹ آئے۔ دکاندار بھی اپنی دکانوں کے تختوں سے اٹھ کر سڑک پر آگئے۔۔۔ داروغہ جی کے حکم سے کتا پیٹا جارہاہے!

محلہ کے دوسرے سرےکےدوکان پر ایک ’’جوان‘‘ بھی بیٹھاہوا حقہ پی رہا تھا، اس نے جو سنا کہ داروغہ جی محلہ میں آگئے، تو وہ بھی اپنی پیٹی کمر میں اور صافہ سر پر درست کرتا ہوا اٹھا۔ محلے والے جمع ہیں۔ داروغہ جی پہلا سگریٹ ختم کرکے دوسرا سلگا رہے ہیں۔ اور کتا پٹ رہا ہے!

کتا چھوٹی نسل کا بھورے بالوں والا۔ خاصا خوبصورت کتا تھا۔ کبھی نان بائی کی دوکان کے سامنے آجایا کرتا تھا۔ مزاج کا ذرا کڑوا تھا۔ اور کم بخت کو داروغہ اور غیر داروغہ کی پہچان نہ تھی!

اس وقت اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ دم ٹانگوں کے اندر مڑ کر گویا چپک گئی تھی۔ زبان ایک انچ سے زیادہ باہر نکلی ہوئی تھی۔ اس کا ہر انداز رحم طلب تھا۔

’’یہ کتا کہیں چھوٹے صاحب کا نہ ہو۔‘‘ کانسٹیبل نے داروغہ کے کان سے منہ ملا کر کہا۔

’’ارے کس کا ہے یہ کتا؟‘‘ داروغہ جی نے محلہ والوں سے سوال کیا۔ مارپیٹ اب بند ہوگئی۔

شیخ جی! جو ابھی ابھی شور پکار سن کر مسجد سے نکلے تھے۔ دبی زبان سے کہنے لگے:

’’یہ کتا تو، صاحب میرے، وہی نا، جو نئے ڈپٹی صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

ایک لونڈا بول پڑا:

دیکھا تو ان ہی کے دروازے پر ہے، داروغہ جی۔

داروغہ جی نے سگریٹ کی جلتی ہوئی دم نالی کی طرف پھینک دی۔ کچھ کھانسے:

’’بھئی کتا تو اچھی نسل کا ہے۔ ہو نہ ہو ڈپٹی صاحب ہی کا ہوگا۔ ذرا ادھر تو لاؤ اسکو۔‘‘ کتے کے سر پر انہوں نے ہاتھ پھیرا:

’’اچھا کتاب ہے۔ نئے ڈپٹی صاحب آدمی شوقین ہیں۔‘‘

پھر کتے کے سر پر تھپکی دی۔ وہ مانوس نہیں ہوتا۔ دم اس کی ابھی تک ٹانگوں کے اندر ہے۔ اب وہ چیختا تو نہیں۔ مگر غرائے جاتا ہے۔

’’مزاج کا ذرا گرم ہے یہ کتا۔۔۔ یہی تو علامت ہے اس بات کی کہ اچھی نسل کا ہے۔

یہ کہہ کر داروغہ جی نے محلہ والوں کی طرف دیکھا گویا اپنی پہچان اور شناخت کی داد چاہتے ہیں۔ کلو نان بائی نے اپنی دکان کے تختہ پر سے پکارا:

’’اجی نہیں داروغہ جی، یہ سسرا تو روز میری دوکان کے سامنے بیٹھا رہتا ہے۔ بھلا ڈپٹی صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔‘‘

کسی نے جواب دیا:

’’نہیں جی، پاگل ہو، اس کا پٹا نہیں دیکھا۔ پالتو ہے جی، بازاری نہیں ہے۔‘‘ داروغہ جی نے تیسرا سگریٹ سلگایا۔ ان کا پارہ ذرا چڑھنے لگا:

’’ارے میاں، تم اتنے محلہ والے ہو۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کتا کس کا ہے، عجیب بے خبر لوگ ہو تم! اس محلہ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔‘‘

’’ہاں صاحب! ہاں صاحب! ہمیں معلوم ہے۔ یہ کتا ڈپٹی صاحب کا ہے۔ ہم نے ہزار دفعہ اس کو ان کی کرسی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

’’ارے میاں! تم بھی عجیب آدمی ہو خاں صاحب۔‘‘ داروغہ جی نے جلدی سے فرمایا۔ ’’کھڑے دیکھ رہے ہو، کتا غریب پٹ رہا ہے اور روکتے بھی نہیں۔ پھلا یہ کیا ظلم ہے۔ کہ سب کے سب غریب کتے پر ٹوٹ پڑیں۔۔۔ چھوڑ دو، اس کا پٹا۔ چھوڑ دو جی! معلوم نہیں کہاں سے گھیر گھار کر اس کو لے آئے۔ اور کہتے ہو کہ دکان کے سامنے پڑا رہتا ہے۔ معلوم نہیں تم لوگوں کو؟ جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے، ابھی چاہو تو دوچار کا چالان کردوں۔ غضب خدا کا، غریب کتا کس بری طرح پیٹا گیا ہے۔ تم لوگ انسان ہو یا جانور۔ بے زبان جانوروں پر یہ ظلم! اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم لوگ تو مار ہی ڈالتے ڈپٹی صاحب کے کتے کو!‘‘

کانسٹیبل کی طرف مخاطب ہوکر فرمانے لگے:

’’لے بھئی، ذرا اٹھا تولے اس غریب کو سنبھال کر۔ چل ڈپٹی صاحب کے یہاں پہنچادیں۔‘‘

محلہ والوں کی طرف رخ کرکے:

’’دیکھو جی! خبردار، آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے ورنہ باندھ لے جاؤں گا دس پانچ کو۔‘‘

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse