ڈوب جانے کے سوا عشق میں چارا ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈوب جانے کے سوا عشق میں چارا ہی نہیں
by بیتاب عظیم آبادی

ڈوب جانے کے سوا عشق میں چارا ہی نہیں
اس سمندر کا کسی سمت کنارا ہی نہیں

تلخیٔ زخم جگر جس کو گوارا ہی نہیں
اس کو ناوک نگہ ناز نے مارا ہی نہیں

سنتے آتے ہیں کہ اک روز قیامت ہوگی
آپ نے زلف پریشاں کو سنوارا ہی نہیں

پردۂ دل سے صدا یار کی آ ہی جاتی
ہم تذبذب میں رہے اس کو پکارا ہی نہیں

باز ہم ایسے تصور سے کہ اب تک جس نے
ایک نقشہ بھی ترا ٹھیک اتارا ہی نہیں

پھر شکایت ہے مرے دل کے تڑپنے کی عبث
تاک کر تیر کوئی آپ نے مارا ہی نہیں

کیا ہے دریائے محبت کے ادھر کیا معلوم
تیری تلوار نے اس گھاٹ اتارا ہی نہیں

ان کی محفل کی عجب بات ہے کیا عرض کریں
تذکرہ سب کا ہے اک ذکر ہمارا ہی نہیں

مل گئی اس کی نظر میری نظر سے آخر
اب تو دینا ہی پڑا دل کوئی چارا ہی نہیں

اور بھی دیدۂ دل رکھتے ہیں پرخوں ہم سے
کچھ ترے ہجر میں یہ رنگ ہمارا ہی نہیں

پارسائی میں ہے فرد اس کی حیا اے بیتابؔ
شوق آلود نظر اس کو گوارا ہی نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse