ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
by محمد علی جوہر

ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
تیری رحمت ہے سبب میری سبک ساری کا

دار نے اک سگ دنیا کو یہ بخشا ہے عروج
ہے فرشتوں میں بھی چرچا مری دیں داری کا

دل و جاں سونپ چکے ہم تجھے اے جان جہاں
اب ہمیں خوف ہی کیا اپنی گرفتاری کا

جان بھی چیز ہے کوئی کہ رکھیں تم سے دریغ
پاس اتنا بھی نہ ہو رسم وفاداری کا

ساقیا سب کو تری ایک نظر کافی تھی
تھا کسے ہوش ترے عہد میں ہشیاری کا

میں فدا آج بھی ہو جائے وہی ایک نگاہ
خاتمہ ہو کہیں اس دور کی خودداری کا

عاشقوں کے لیے ہے دار ہی داروئے شفا
عشق کی طب میں دوا نام ہے بیماری کا

اجل استادہ ہے بالیں پہ مریض غم عشق
آنکھ تو کھول ذرا وقت ہے بیداری کا

جوہرؔ اور حاجب و درباں کی خوشامد کیا خوب
عرش و کرسی پہ گزر ہے ترے درباری کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse