ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
by مومن خان مومن

ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پر حال یہ افشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ناصح یہ گلہ کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تو کب مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں بولوں تو چپ ہوتے ہیں اب آپ جبھی تک
یہ رنجش بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کچھ غیر سے ہونٹوں میں کہے ہے یہ جو پوچھو
تو ووہیں مکرتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کب پاس پھٹکنے دوں رقیبوں کو تمہارے
پر پاس تمہارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ناصح کو جو چاہوں تو ابھی ٹھیک بنا دوں
پر خوف خدا کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کیا کیا نہ کہے غیر کی گر بات نہ پوچھو
یہ حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کیا کہئے نصیبوں کو کہ اغیار کا شکوہ
سن سن کے وہ چپکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مت پوچھ کہ کس واسطے چپ لگ گئی ظالم
بس کیا کہوں میں کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

چپکے سے ترے ملنے کا گھر والوں میں تیرے
اس واسطے چرچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ہاں تنگ دہانی کا نہ کرنے کے لیے بات
ہے عذر پر ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اے چارہ گرو قابل درماں نہیں یہ درد
ورنہ مجھے سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ہر وقت ہے دشنام ہر اک بات میں طعنہ
پھر اس پہ بھی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کچھ سن کے جو میں چپ ہوں تو تم کہتے ہو بولو
سمجھو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

سنتا نہیں وہ ورنہ یہ سرگوشی اغیار
کیا مجھ کو گوارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مومنؔ بخدا سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse