ڈبوئے گی بتو یہ جسم دریا بار پانی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈبوئے گی بتو یہ جسم دریا بار پانی میں
by حاتم علی مہر

ڈبوئے گی بتو یہ جسم دریا بار پانی میں
بنے گی موج بھی میرے لیے زنار پانی میں

غبار دیدہ تر سے تکدر دل کا ظاہر ہے
تماشہ ہے اٹھی مٹی کی اک دیوار پانی میں

تن بے جاں میں جاں آئی ہے ابرو کے اشارہ سے
بجھی تھی چشمۂ حیواں کی یہ تلوار پانی میں

یہی رونا ہے فرقت میں تو جاں آنکھوں سے نکلے گی
ہے مرغ آبی اڑنے کے لیے تیار پانی میں

ہمیں کیا غیر کے کھیتوں پہ جو ابر کرم برسا
نہ آئی اپنی جانب تو کبھی بوچھار پانی میں

تڑپتا ہوں میں رو رو کے خیال مصحف رخ میں
کہ غسل ارتماسی کرتے ہیں دیں دار پانی میں

مرے رونے پہ وہ ہنستے ہیں تو اغیار جلتے ہیں
طلسم تازہ ہے بد گل ہوئے فی النار پانی میں

ہوئے غرق عرق جو شرم عصیاں سے وہ پاک اٹھے
ہوا کرتے ہیں پیدا گوہر شہوار پانی میں

نہ ہوگی آبروئے عارضی تو جوہر ذاتی
پئیں سونے کا پانی بھی اگر زردار پانی میں

جو تو آئینہ رکھ کر سامنے زیور پہنتا ہے
تری بالی کی مچھلی تیرتی ہے یار پانی میں

شراب ناب ہے اک قسم کا پانی ہے اے زاہد
عبث کیوں ہے تجھے اے نا سمجھ انکار پانی میں

لطیف‌ الطبع جز راحت نہیں دیتے کبھی ایذا
نہیں ممکن کہ پیدا ہو چھری کی دھار پانی میں

بنا دیتے ہیں دم میں سیکڑوں گنبد حبابوں کے
خدا کی شان رہتے ہیں عجب معمار پانی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse