ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی
by مرزا فرحت اللہ بیگ

اللہ اللہ! ایک وہ زمانہ تھا کہ میں اور دانی، مولوی صاحب مرحوم کی باتیں سنتے تھے۔ ان کی ہمت ہماری ہمت بڑھاتی تھی، ان کا طرز بیان ہماری تحریر کا رہبر ہوتا تھا، ان کی خوش مذاقی خود ان کو ہنساتی اور ہمارے پیٹ میں بل ڈالتی تھی، ان کی تکلیفیں خود ان کو پر نم اور ہم کو تڑپاتی تھیں۔ اور آج وہ دن ہے کہ ان کے حالات زبان قلم پر لانے سے سے ڈر لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ بزرگ ہستی اخوت اسلامی کا سبق پڑھے ہوئے تھی۔ اس کو اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے پر ناز تھا۔ وہ چھوٹے درجے سے بڑے درجے پر ترقی کرنا اپنا کارنامہ سمجھتی تھی۔ اس نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کر دکھایا، وہ کسی کی خوشامد، کسی کی سفارش یا کسی خاندانی وجاہت کے باعث نہ تھا۔ وہ تھا اور دنیا کا وسیع اکھاڑا۔

وہ اپنے دست و بازو کے بھروسے پر اس میدان میں اترا، ہر مصیبت کا سامنا اپنی ذاتی قابلیت و ہمت سے کیا۔ جس کا م میں ہاتھ ڈالا، اس کی تکمیل میں خون پانی ایک کر دیا اور دنیا پر بہ خوبی ثابت کر دیا کہ بے یاری اور مدد گاری، ترقی کی راہ میں ایسی رکاوٹیں نہیں ہیں جو بہ آسانی ہٹائی نہ جا سکیں اور خاندانی تعلقات کی عدم موجودگی، ایسی چیز نہیں ہے جو مانع ترقی ہو سکے۔ جب کبھی جوش میں آتے تو ہمیشہ I am a self made man کا فقرہ ضرور استعمال کیا کرتے اور جب کبھی اس پہلو پر نصیحت کرتے، تو ہمیشہ یہی فرماتے کہ بیٹا! جو کچھ کرنا ہے خود کرو، باپ داد کی ہڈیوں کے واسطے سے بھیک نہ مانگتے پھرو۔

انسان، فطرت سے مجبور ہے۔ جب دنیا کی نظریں اس پر پڑنے لگتی ہیں، تو وہ ہمیشہ اپنی پہلی حالت کی کمزوریوں کو چھپاتا اور خوبیوں کو دکھاتا ہے۔ جس طرح بڑے بڑے گھرانوں کی نا اہل اولاد اپنے باپ دادا کے نام سے اپنی نالائقی کو چھپاتی ہے، اسی طرح غریب گھرانوں کی لائق اولاد چاہتی ہے کہ ان کے باپ دادا کے نام لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائیں۔ یہ ہماری اخلاقی کمزوری اور یہ ہے ہماری اسلامی سبق سے بے خبری۔ ایک مولوی نذیر احمد خاں تھے، جو اپنے آباء و اجداد کا نقشہ اصلی رنگ میں دکھاتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ ان کو اپنی ابتدائی غربت پر ناز تھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’میاں! اگر لفٹننٹ گورنر کے بیٹے ہو، تو کم سے کم ڈپٹی کمشنر تو ہو جاؤ، دس روپے کے اہل کار ہو کر باپ کو لفٹیننٹ گورنر کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘

بہر حال یہ فطرت انسانی کا خیال تھا جس نے اب تک مجھے مولوی صاحب مرحوم کے حالات لکھنے سے روکا۔ بہت کچھ لکھ لیا تھا، وہ پھاڑ ڈالا کہ کہیں اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ رہ رہ کر جوش آتا تھا اور ٹھنڈا پڑ جاتا تھا۔ خدا بھلا کرے مولوی عبد الحق صاحب کا کہ انہوں نے مجھے اس اگر مگر سے نکالا اور دل کی باتوں کو حوالہ قلم کرنے پر آمادہ کر دیا۔ اب جو کچھ کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے وہ لکھوں گا اور بے دھڑک لکھوں گا، خواہ کوئی برا مانے یا بھلا۔ جہاں مولوی صاحب مرحوم کی خوبیاں دکھاؤں گا، وہاں ان کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دوں گا، تاکہ اس مرحوم کی اصلی اور جیتی جاگتی تصویر کھنچ جائے اور یہ چند صفحات ایسی سوانح عمری نہ بن جائیں جو کسی کےخوش کرنے یا جلانے کو لکھی گئی ہو۔

میں واقعات کے بیان کرنے میں کوئی سلسلہ بھی قائم نہ کروں گا کیونکہ یہ بناوٹ کی صورت ہے۔ جس موقع پر جو کچھ سنایا دیکھا، اس کو جوں کا توں لکھ دوں گا اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو، واقعات مولوی صاحب کی زبان میں بیان کئے جائیں۔ انشاء اللہ واقعات کے اظہار میں مجھ سے غلطی نہ ہوگی، ہاں یہ ممکن ہے کہ بعض نام بھول جانے کی وجہ سے چھوڑ جاؤں یا غلط لکھ جاؤں۔ اب رہا سچ یا جھوٹ تو اس کی مجھے پروا نہیں۔ میں اپنے محترم استاد کے حالات لکھ رہا ہوں۔ اگر سچ ہیں، تو میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ اگر جھوٹ ہیں تو وہ خود میدان حشر میں، سود در سود لگا کر تاوان وصول کر لیں گے۔

اب رہا طرز بیان، تو اس میں متانت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہوں، کیونکہ مولوی صاحب جیسے خوش مذاق آدمی کے حالت لکھنے میں متانت کو دخل دینا ان کا منہ چڑانا ہی نہیں ان کی توہین کرنا ہے، بلکہ یوں کہو کہ سید ا نشا کو میر اور مارک ٹوئن کو امر سن بنانا ہے۔ جب اپنی زندگی میں انہوں نے میری شوخ چشمی کی ہنس ہنس کر داد دی، تو کوئی وجہ نہیں کہ اب وہ اپنی وضع داری کو بدل دیں اور میری صاف گوئی کو گستاخی قرار دے کر دعوے دار ہوں۔۔۔ چل رے خامے بسم اللہ۔

1903 میں میاں دانی نے اور میں نے ہندو کالج دہلی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور دونوں مشن کالج میں داخل ہو گئے۔ ایف اے میں میرا مضمون اختیاری سائنس اور دانی کا عربی تھا۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ بے اے میں عربی لے لو، دونوں کوایک دوسرے سے مدد ملے گی اور امتحان کی تیاری میں سہولت ہوگی۔ مجھے اپنے حافظے پر گھمنڈ تھا، یہ بھی نہ سمجھا کہ اس مضمون کو سنبھال بھی سکوں گا یا نہیں، جھٹ راضی ہو گیا۔ القصہ ہم دونوں بی اے کے درجہ ابتدائی میں شریک ہو گئے۔ ہمارے عربی کے پروفیسر مولوی جمیل الرحمان صاحب تھے، بڑے اللہ والے لوگ تھے، عربی کا گھنٹا بہ آسانی تصوف کی باتوں میں گزر جاتا تھا، کچھ تھوڑا بہت پڑھ بھی لیتے تھے، دانی کچھ سمجھتے ہوں تو سمجھتے ہوں، کمترین تو توتے کی طرح حفظ کر لیتا تھا۔ اب رہی صرف و نحو، اس میں تو کورے کا کورا ہی رہا۔

سنتے آئے ہیں کہ مصیبت کہہ کر نہیں آتی، لیکن یہ نہیں سنا تھا کہ عربی کے پروفیسر کہہ کر نہیں جاتے۔ ایک دن جو مولوی صاحب کے کمرے میں ہم دونوں پہنچے تو دیکھا کہ کمرا خالی ہے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کل شام کو استعفیٰ دے کر کعبۃ اللہ چل دیے۔ پرنسپل صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے کورا جواب دے دیا کہ ہم عربی کی جماعت کا بندوبست نہیں کر سکتے، بہتر یہ ہے کہ مضمون تبدیل کر لو۔ میں نے دانی سے کہا کہ بھئی تمہارے کہنے سے میں نے عربی لی تھی، اب میرے کہنے پر تم سائنس لے لو۔ جس سہولت کی بنا پر تم نے میرا مضمون بدلوایا تھا، اب اسی سہولت کے مد نظر اپنا مضمون بدلو۔ بہ قول شخصے کہ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ وہ راضی ہو گئے۔ دفتر جا کر جو لکچروں کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ مضمون تبدیل کرنے کا وقت نہیں رہا، لکچر کم رہ جائیں گے اور اس طرح بجائے دو سال کے تین سال میں شریک امتحان ہونا پڑے گا۔ سنگ آمد و سخت آمد۔

جب ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے‘‘ کی صورت آن پڑی، تو دوسرے ٹھکانے کی تلاش ہوئی۔ دونوں سرملا کر بیٹھے، مشورے کیے، رزولیوشن پاس ہوئے، آخر یہ تجویز پاس ہوئی کہ ’’خاک از تو دہ کلاں بردار‘‘ کے مقولے پر عمل کرکے کسی زبر دست مولوی کو گھیرنا چاہئے۔ دلی میں دو تین بڑے عربی داں مانے جاتے تھے، ایک مولوی محمد اسحاق صاحب، دوسرے شمس العلماء مولوی ضیاء الدین خاں صاحب ایل ایل ڈی، اور تیسرے مولوی نذیر احمد خاں صاحب۔ پہلے کو تو دیوانگی سے فرصت نہ تھی، اس لیے وہاں تو دال گلتی معلوم نہیں ہوئی، قرعہ دوسرے صاحب کے نام پرپڑا۔

گرمیوں کا زمانہ تھا، مولوی ضیاء الدین صاحب جامع مسجد میں رات کے دس گیارہ بجے تک بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے تھے، ہم دونوں نے بھی جا کر شام ہی سے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ آٹھ بے، نو بجے، دس بج گئے۔ مولوی صاحب نہ آج نکلتے ہیں نہ کل۔ خدا خدا کر کے دروازے سے قندیل نکلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ہم دونوں بھی ہاتھ پاؤں جھٹک، خوشامد کے فقرے کے فقرے سوچ کھڑے ہو گئے۔

ہم آخری سیڑھیوں پر کھڑے تھے، اس لئے دروازے میں سے پہلے قندیل نکلتی نظر آئی، اس کے بعد جس طرح سمندر کے کنارے سے جہاز آتی دکھائی دیتا ہے اسی طرح پہلے مولوی صاحب کا عمامہ، اس کے بعد ان کا نورانی چہرہ، سر مگیں آنکھیں، سفید ریش مبارک، سفید جبہ اور سب سے آخر زرد بانات کی سلیم شاہی جوتیاں نظر آئیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے سیڑھیوں سےاترنا اور اوپر تلے ہمارے سانس نے چڑھنا شروع کیا۔ ہم سوچتے ہی رہے کہ راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں، وہ سٹ سے پاس سے نکل گئے۔

آخر ذرا تیز قدم، چل کر ان کو جا لیا اور نہایت ادب سے دونوں نے جھک کر فرشی سلام کیا۔ وہ سمجھے کوئی راہ گیر ہیں، میری وجاہت کی وجہ سے سلام کر رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھے کی سائل ہیں، ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے۔ وہ تو سلام لیتے ہوئے آگے بڑھے اور ہم نے وہی پہلی والی ترکیب کی کہ چکر کھا کر پھر سامنے آگئے۔ یہ دیکھ کر وہ ذرا ٹھٹکے، پوچھا، میں نے آپ صاحبوں کو نہیں پہچانا، کیا مجھ سے کوئی کام ہے؟ رام کہانی بیان کر کے عرض مدعا زبان پر لائے۔ فرمانے لگے، تم کو معلوم ہے کہ میں پنجاب یونیورسٹی کا ممتحن ہوں۔ بجنسہ اسی لہجے میں یہ الفاظ ادا کئے جیسے اس زمانے میں کوئی کہے، تم کو معلوم ہے کہ میں سی آئی ڈی کا انسپکٹر ہوں۔ لیکن ہم جان سے ہاتھ دھوئے بیٹھے تھے، عرض کیا کہ ہم امتحان میں رعایت کے طالب نہیں، تعلیم میں مدد چاہتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تم کو تعلیم دینا اور پھر ممتحن رہنا میرے ایمان کے خلاف ہے، کسی دوسرے کی تلاش کیجئے۔

ممکن ہے کہ یہ مسئلہ کوئی جزو ایمان ہو، ممکن ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے مولوی صاحب سے تعلیم نہ دینے کا حلف لے لیا ہو، بہر حال کچھ بھی ہو، انہوں نے ہم دونوں کو سلام علیکم کا ایک زور سے دھکا دے کر نوکر کو حکم دیا کہ آگے بڑھو۔ وہ حکم کا بندہ قندیل اٹھا، آگے چلا اور مولوی صاحب اس کے پیچھے پیچھے لمبے لمبے ڈگ بھرتے روانہ ہوئے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ دونوں قطاع الطریق پھر راستہ نہ روک لیں، مگر مولوی صاحب کےطرز عمل اور سلام علیکم کے جھٹکے نے ہم دونوں کو مضمحل کر دیا تھا۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور مولوی صاحب رہٹ کے کنویں کی گلی میں گھس، اپنے مکان میں داخل ہو گئے۔ چلو امید نمبر دو پر پانی پھر گیا، لیکن آئندہ کے لئے سبق مل گیا کہ ایسے زبردست دشمن پر کھلے میدان میں حملہ کرنا خطرناک ہے، ایسے رستم کو پکڑنے کے لئے شغاد بننا ضروری ہے۔

وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر کونسل ہوئی او رزولیوشن پاس ہوا کہ مولوی نذیر احمد صاحب پر حملہ عبد الرحمان کی آڑ میں کیا جائے۔ اب میاں عبد الرحمان کا حال بھی سن لیجئے۔ ان کے والد کا نام سراج الدین صاحب تھا۔ نہایت نیک اور پرہیز گار شخص تھے۔ جوتوں کی دکان تھی۔ مولوی نذیر احمد صاحب اس دکان کو ہمیشہ رقمی مدد دیا کرتے تھے اور روزانہ شام کو وہاں آ کر بیٹھتے تھے۔ عبد الرحمان میرے ہم جماعت نہ تھے لیکن آپس میں میل جول بہت تھا۔ مولوی صاحب کو ان کی تعلیم کا بہت خیال تھا، چنانچہ انہیں کی وجہ سے عبد الرحمن نے بی اے، ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ انہی کی وجہ سے وکالت میں ترقی کی، یہاں تک کہ مولوی صاحب ہی کی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت دہلی میں ان کی ٹکر کا کوئی مسلمان وکیل نہیں ہے۔ اس زمانے میں یہ ایف اے میں پڑھتے تھے۔

بہر حال اسکیم تیار ہو گئی اور دوسرے ہی دن میں نے عبد الرحمان کو گانٹھنا شروع کیا۔ دو ایک روز کے بعد ان سے اظہار مطلب کیا۔ کہنے لگے کہ بھئی مولوی صاحب کو فرصت کم ہے کہیں انکار نہ کر بیٹھیں۔ میں نے کہا کہ میاں عبد الرحمان! تم ان تک ہم کو پہنچا دو، اگر ہو سکے تو ایک دو کلمہ خیر بھی ہمارے حق میں کہہ دو، آگے ہم جانیں اور ہماری قسمت۔ وہ راضی ہوگئے اور کہا کہ شام کو آٹھ بجے دکان پر آجانا، میں مولوی صاحب سے ملوا دوں گا، اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔

ٹھیک آٹھ بجے ہم دونوں سراج الدین صاحب کی دکان پر پہنچے۔ یہ دکان فتح پوری کی مسجد کے قریب تھی۔ جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ مولوی صاحب بیٹھے سراج الدین سے کچھ رقم کا حساب کر رہے ہیں۔ ہم نے جاتے ہی فرشی سلام کیے اور خاموش تخت کے کونے پر بیٹھ گئے۔ سراج الدین صاحب نے خیریت پوچھی، عبد الرحمان ہمارے پاس آبیٹھے، مگر مولوی صاحب روپیوں کے حساب کتاب میں اس قدر مشغول تھے کہ انہوں نے دیکھا بھی نہیں کہ کون آیا، کون گیا۔ میں نے سوچا کہ یہاں بھی معاملہ پٹتا معلوم نہیں ہوتا، دھتکار سن کر یہاں سے بھی نکلنا پڑے گا۔ سچ ہے، مایوسی انسان کو ہمت والا بنا دیتی ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا، میں نے بھی سوچ لیا کہ آج اس پار یا اس پار۔ مولوی ضیاء الدین صاحب تو بچ کر نکل گئے، لیکن مولوی نذیر احمد صاحب سے دو دو ہاتھ ہو جائیں گے۔

قصہ مختصر، مولوی صاحب حساب سے فارغ ہوئے اور پوچھا کہ یہ دونوں صاحب کون ہیں؟ عبد الرحمان نے ہمارے نام بتائے، کچھ الٹے سیدھے خاندانی حالات بھی بیان کئے، ا س کے بعد ہماری مصیبت کا بھی ذرا سا تذکرہ کیا اور خاموش ہوگئے۔ میں نے دل میں کہا، پرائے برتے کھیلا جوا، آج نہ موا کل موا۔ اب میاں عبد الرحمان کو رہنے دو، جو کچھ کہنا ہے خود کہہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے بھی بے نیل مرام باضابطہ پسپائی ہو۔ میں نے نہایت رقت آمیز لہجے میں اپنی مصیبت کا تذکرہ شروع کیا۔ فرمانے لگے، تو عربی چھوڑ دو، سائنس پڑھو۔ بیٹا! آج کل مسلمانوں کو سائنس کی بڑی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں مثل ہے، پڑھیں فارسی بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل۔ فارسی پڑ کر تیل تو بیچ لوگے، عربی پڑھ کر تیل بیچنا بھی نہ آئے گا۔

ان کی اس پر مذاق گفتگو سے ہم دونوں کے دل بڑھ گئے۔ ہم رہنے والے ٹھہرے جامع مسجد کے نیچے کے، بھلا ایسی باتوں میں ہم سے کون اور آ سکتا ہے۔ ہم نے بھی ایسے ہی شگفتہ الفاظ میں جواب دیا۔ مولوی صاحب پہلے تو مسکراتے رہے۔ اس کے بعد کھلکھلا کر ہنس دیے۔ دانی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ بڑا غریب معلوم ہوتا ہے، مگر تو بڑا بدمعاش ہے۔ بیٹا! جاؤ کسی دوسرے مولوی صاحب کی تلاش کرو۔ دلی میں کیا مولویوں کا کال ہے۔ مجھے ذرا بھی فرصت ہوتی تو کبھی انکار نہ کرتا۔ میں نے عرض کی کہ جناب والا کا ارشاد بالکل صحیح ہے مگر جو مولوی ہیں وہ پڑھاتے نہیں اور جو پڑھاتے ہیں، وہ مولوی نہیں ہیں۔

کہنے لگے، نہیں، ایک آدھ ایسا بھی نکل آئے گا جو مولوی بھی ہوگا اور پڑھائے گا بھی۔ جناب شمس العلماء مولوی ضیاء الدین خاں صاحب ایل ایل ڈی ( یہ الفاظ بہت طنز سے کہے) کے پاس جاؤ، ا ن کو فرصت بھی ہے اور عالم بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ وہ پنجاب یونیورسٹی کے ممتحن بھی کہنے لگے۔ میں اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ یہاں تو جلے بیٹھے ہی تھے، جامع مسجد کی سیڑھیوں والا واقعہ خوب نمک مرچ لگا کر بیان کیا۔ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ بھئی، تم لونڈوں سے ڈرنا چاہئے۔ ضیاء الدین کو اگر خبر ہو جائے کہ ان کے اوصاف حمیدہ و خصائل پسندیدہ سراج الدین کی دکان پر اس طرح معرض بحث میں آتے ہیں تو یقین جانو کی نالش ٹھونک دیں۔ اچھا بھئی میں تم کو پڑھاؤں گا مگر تم بھاگ جاؤ گے۔

ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا، نہیں ہرگز نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا چھٹی ایک دن کی نہ ہوگی۔ ہم نے کہا بہت خوب۔ مولوی صاحب نے کہا کہ عید بقر عید کو بھی آنا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ بہت مناسب، کل کس وقت حاضر ہوں؟ مولوی صاحب تھوڑی دیر تک انگلیوں پر کچھ اپنے وقت کا حساب کرتے رہے، اس کے بعد کہا، ’’دوپہر کو ڈیڑھ بجے۔‘‘ ہم نے کہا، بہت خوب۔ چونکہ ان باتوں میں رات زیادہ ہو گئی تھی، اس لئے مولوی صاحب دکان سے اٹھے۔ ہم سب نے سلام کیا اور وہ و علیکم السلام کہتے ہوئے تشریف لے گئے۔

یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ سراج الدین صاحب وقتاً فوقتاً ہماری ہاں میں ہاں ملا کر اس فیصلے میں بڑی مدد کی۔ ہم دونوں بھی خوش خوش اٹھے اور سلام علیکم، و علیکم السلام کر کے دکان سے چلے۔ راستے میں دانی نے کہا، میاں مرزا! بڑے میاں نے مار ڈالا، بھئی گیارہ بجے کالج سے پڑھ کر نکلیں گے، کشمیری دروازے سے چل کر چوڑی والوں آتے آتے ساڑھے گیارہ بج جائیں گے۔ دم نہ لینے پائیں گے کہ مولوی صاحب کے ہاں چلنے کی تیاری کرنی پڑے گی۔ کہاں چاوڑی اور کہاں کھاری باولی، جون کامہینہ؟ کہیں راستے میں لو لگ کر ٹیں نہ ہو جائیں!

میں نے کہا، میاں دانی کچھ دنوں چل کر دیکھو، شاید مولوی صاحب کو رحم آ جائے مگر ان کو آخر تک رحم نہ آنا تھا، نہ آیا۔ لطف یہ ہے کہ جاڑوں میں صبح ساڑھے چھے بجے سے تعلیم کا وقت مقرر ہوا، لیکن ایمان کی بات ہے کہ مولوی صاحب ہی کی ہمت تھی جو وہ ہمارے پڑھانے کو تیار ہو گئے، بے چاروں کا ایک منٹ خالی نہ تھا اور انہوں نے جو وقت ہم کو دیا تھا، وہ اپنے آرام کے وقت میں سے کاٹ کر دیا تھا۔

تقریباً دو برس تک ہم ان سے پڑھتے رہے، نہ ہم نے کبھی گرمی یا سردی کی شکایت کی اور نہ کبھی وقت بدلنے کا لفظ زبان پر لائے۔ نہ ان دو سال میں ایک دن ناغہ کیا۔

یہاں تک کہ مولوی صاحب بھی ہمیشہ کہتے تھے کہ بیٹا، جب تم دونوں آتے ہو میرا دل خوش ہو جاتا ہے، کیوں کہ میں تم میں طالب علمی کی بو پاتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ تعلیم کس کو کہتے اور علم کیوں کر حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح ہم نے پڑھا ہے کچھ ہمارا ہی دل جانتا ہے۔ اس زمانے کے لونڈوں پر اگر ایسی بپتا پڑے تو گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں، مگر (میری طرف دیکھ کر) استاد! تم سے مجھے کچھ توقع نہیں، تم صرف بی اے پاس کرنے کی فکر میں ہو۔ دانی کو شوق ہے، یہ عربی میں ترقی کرے گا، مگر تم کورے کے کورے ہی رہو گے اور انشاء اللہ پانچ چھے ہی برس میں میری ساری محنت اکارت کر دوگے۔ خدا کے فضل سے ان کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔

اس سے پہلے کہ مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا ذکر کروں، میں مولوی صاحب کی شکل و صورت، مکان کی حالت، ان کے رہنے سہنے کے طریقے اور ان کے مشاغل کا نقشہ کھینچ دینا مناسب خیال کرتا ہوں، تاکہ مولوی صاحب کے کیرکٹر کا صحیح اندازہ ہو سکے، لیکن سینو میٹو گرام کا یہ فلم چڑھانے سے قبل میں اپنے طرز بیان کے متعلق معافی مانگ لیتا ہوں، کیوں کہ میری شوخی بعض جگہ حد تجاوز سے بڑھ جائے گی، لیکن آپ تمام قارئین کرام کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب خود اپنی سوانح عمری لکھتے تو اسی رنگ میں لکھتے اور اگر آپ ان کی صحبت میں رہے ہوتے، تو آپ کو بھی ان کے حالات لکھتے وقت میری ہی طرح معافی مانگنی پڑتی، ورنہ آپ کی تحریر، بجائے مولوی نذیر احمد صاحب کی سوانح عمری کے، کسی ٹھوٹھ ملا کے بے لطف واقعات کا ایک مجموعہ ہو جاتی۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اس وقت بھی لکھتے لکھتے پنسل ہاتھ سے رکھ دیتا ہوں اور ایک عالم بے خودی مجھ پر چھا جاتا ہے۔

مولوی صاحب کی کوئی بات نہ تھی جس میں خوش مذاقی کا پہلو نہ ہو۔ کوئی قصہ نہ تھا جس میں ظرافت کوٹ کوٹ کر نہ بھری ہو۔ کوئی طرز بیان نہ تھا جو ہنساتے ہنساتے نہ لٹا دے۔ وہ دوسروں کو ہنساتے تھے اور چاہتے تھے کہ دوسرے اپنی باتوں سے ان کو ہنسائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم (اور خاص کر میں) مولوی صاحب کے سامنے بہت شوخ ہو گئے تھے، لیکن وہ طرح ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ کہا کرتے تھے کہ مجھے مقطع اور مسمسے شاگردوں سے نفرت ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی صاحب یہ توقع رکھیں کہ میں مولوی صاحب کے حالات، متانت کا پہلو اختیار کر کے لکھوں، تو میں اس کا صرف یہی جواب دوں گا کہ ’’ہائے کم بخت! تونے پی ہی نہیں۔‘‘

لیجئے، اب مولوی صاحب کا حلیہ سنیئے۔۔۔ رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصا اونچا تھا، مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا۔ دہرا بدن، گدرا ہی نہیں بلکہ مٹاپے کی طرف کسی قدر مائل۔ فرماتے تھے کہ بچپن میں ورزش کا شوق تھا۔ ورزش چھوڑ دینے سے بدن جس طرح مرمروں کا تھیلا ہو جاتا ہے، بس یہی کیفیت تھی۔ بھاری دن کی وجہ سے چونکہ قد ٹھنگنا معلوم ہونے لگا تھا س لیے اس کا تکملہ اونچی ترکی ٹوپی سے کر دیا جاتا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ تھا۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ گھر میں ازاربند باندھنا بھی بے ضرورت ہی نہیں، تکلیف دہ سمجھا جاتا تھاا ور محض ایک گرہ کو کافی خیال کیا گیا تھا۔ گرمیوں میں تہمد ( تہ بند) باندھتے تھے، اس کے پلو اڑسنے کی بجائے ادھر ادھر ڈال لیتے تھے۔ مگر اٹھتے وقت بہت احتیاط کرتے تھے۔ اول تو قطب بنے بیٹھے رہتے تھے اگر اٹھنا ہوتو پہلے اندازہ کرتے تھے کہ فی الحال اٹھنے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ضرورت نے بہت مجبور کیا تو ازار بند کی گرہ یا تہمد کے کونوں کو اڑسنے کا دباؤ توند پر ڈالتے تھے۔

سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔ جو تھوڑے رہے سہے بال تھے وہ اکثر نہایت احتیاط سے صاف کرا دیے جاتے تھے، ورنہ بالوں کی یہ کگر سفید مقیش کی صورت میں ٹوپی کے کناروں پر جھالر کا نمونہ ہو جاتی تھی۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی، ذرا اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ بھنویں گھنی اور آنکھوں کے اوپر سایہ افگن تھیں۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی۔ وہ چمک نہیں جو غصے کے وقت نمودار ہوتی ہے، بلکہ یہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر میں اس کو مسکراتی ہوئی آنکھیں کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔

کلہ جبڑا بڑا زبر دست پایا تھا۔ چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھا دی تھی، اس لئے نہایت اونچی آواز میں بغیر سانس کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ، کوئی دور سے جو سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں۔ لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آکر جب آواز بلند کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ترم بج رہا ہے، اسی لیے بڑے بڑے جلسوں پر چھا جاتے تھے اور پاس اور دور بیٹھنے والے دونوں کو ایک ایک حرف صاف صاف سنائی دیتا تھا۔

ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری، ایسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں ’’گاجر‘‘ اور دلی والوں کی بول چال میں ’’پھلکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ گو متانت چھو کر نہیں گئی تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتار میں خود بہ خود متانت پیدا کر دی تھی۔ ڈاڑھی بہت چھدری تھی۔ ایک ایک بال بہ آسانی گنا جا سکتا تھا۔ کلے تو کبھی قینچی کے منت کش نہ ہوئے۔ البتہ ٹھوڑی پر کا حصہ کبھی کبھی ہموار کرا لیا جاتا تھا۔ ڈاڑھی کی وضع، قدرت نے خود فرنچ فیشن بنا دی تھی۔ بالوں میں ٹھوڑی اس طرح دکھائی دیتی تھی جیسے ایکس ریز (X- Rays) ڈالنے سے کسی بکس کے اندر کی چیز۔ ٹھوڑی چوڑی اور ان کے ارادے کے پکے ہونے کا اظہار کرتی تھی۔ گردن چھوٹی مگر موٹی تھی۔ لیجئے یہ ہیں، مولوی نذیر احمد خاں صاحب۔

اب رہی لباس کی بحث تو اس کا بھی حال سن لیجئے۔ جنہوں نے ان کو شالی رومال باندھے، کشمیری جبہ یا ایل ایل ڈی کا گون پہنے دیکھا ہے انہون نے عالی جناب شمس العلماء مولوی حافظ ڈاکٹر نذیر احمد خاں صاحب ایل ایل ڈی مدظلہ العالی کو دیکھا ہے، مولوی نذیر احمد صاحب کو نہیں دیکھا۔ ان کے گھر کے اور باہر کے لباس میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اگر ان کو روزانہ باہر نکلنے کا شوق نہ ہوتا تو لباس کی مدہی ان کے اخراجات کی فہرست سے نکل جاتی۔ جب شام کو گھر سے نکلتے تو عموماً ترکی ٹوپی یا چھوٹا سفید صافہ باندھ کر نکلتے تھے۔ گرمیوں میں نہایت صاف شفاف سفید اچکن اور سفید کرتا پائجامہ ہوتا اور جاڑوں میں کشمیرے کی ا چکن یا کشمیری کام کا جبہ۔

چونکہ سراج الدین صاحب سے لین دین تھا س لئے لال نری کا سلیم شاہی جوتا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ پھر بھی وقت بے وقت کے لیےدو انگریزی جوڑے لگا رکھے تھے جن پر میری یاد میں پالش ہونے کی کبھی نوبت نہ آئی۔ یہاں تک کہ دونوں سوکھ کر کھڑنک ہو گئے تھے۔ انہی کا پاؤں تھا کہ ان چینیوں کے سے سخت جوتوں کی برداشت کرتا تھا۔ جرابوں سے انہیں ہمیشہ نفرت تھی۔ گو دربار میں جانے کے لیے دو ایک جوڑیاں پاس رہتی تھیں۔

یہ تو پبلک کے مولوی صاحب ہوئے، اب ہمارے مولوی صاحب کو دیکھئے۔ آئیے میرے ساتھ چوڑی والوں سے چلئے۔ چوڑی والوں سے نکل کر چاوڑی میں آئیے۔ الٹے ہاتھ کو مڑ کر قاضی حوض پر سے ہوتے ہوئے، سر کی والوں پر سے گزر کر لال کنویں پہنچئے۔ آگے بڑھیئے تو بڑیوں کا کٹرا ہے، وہاں سے آگے چل کر نئے بانس میں آئیے۔ یہ سیدھا راستہ کھاری باولی کو نکل گیا ہے۔ نکڑ سے ذرا ادھر ہی دائیں ہاتھ کو ایک گلی مڑی ہے۔ یہ بتاشے والوں کی گلی ہے۔ بتاشے بنتے ہوئے ہم نے سب سے پہلے یہیں دیکھے۔ یہاں اچار، چٹنیوں والوں کی بیسیوں دکانیں ہیں، انہی دکانوں کے بیچ میں سے ایک گلی سیدھے ہاتھ کو مڑی ہے، تھوڑی ہی دور جا کر بائیں طرف ایک پتلی سی گلی اس میں سے کٹ گئی ہے، اس گلی میں پہلا ہی مکان مولوی صاحب کا ہے۔

مکان دو منزلہ ہے اور نیا بنا ہوا ہے۔ صفائی کی یہ حالت ہے کہ تنکا پڑا ہوا نظر نہیں آتا۔ دروازے کے باہر دونوں پہلوؤں میں دو سنگیں چوکیاں ہیں۔ دروازے کو عبور کرنے کے بعد صحن میں آتے ہیں، صحن کسی قدر چھوٹا ہے۔ سیدھی طرف دفتر ہے جہاں اکثر دو تین آدمی بیٹھے ہوئے کلام مجید پر حنا کیا کرتے ہیں۔ اس کے مقابل بائیں طرف باورچی خانہ ہے، چولہے بنے ہوئے ہیں، آگ جل رہی ہے مگر برتن اور ہنڈیاں وغیرہ جو باورچی خانے کا جزو لاینفک ہیں، سرے سے ندارد ہیں۔ آگ صرف حقے کے لیے سلگائی جاتی ہے، کھانا دوسرے گھر سے پک کر آتا ہے۔ دروازے کے بالکل سامنے اکہرا دالان ہے او راندر ایک لمبا کمرا۔ گرمی کا موسم ہے اور مولوی صاحب ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں۔ کمرے کے دو دروازے بند ہیں، ایک کھلا ہے۔ باہر ایک بڑھیا پھونس چماری بیٹھی پنکھے کی رسی کھینچ رہی ہے۔

ہاں تو میں کیا تصویر دکھانا چاہتا تھا؟ مولوی صاحب کا لباس، مگر خدا کے فضل سے ان کے جسم پر کوئی لباس ہی نہیں ہے جس کا تذکرہ کیا جائے۔ نہ کرتا ہے نہ ٹوپی نہ پائجامہ، ایک چھوٹی سی تہمد برائے نام کمر سے بندھی ہوئی ہے۔ بندھی ہوئی نہیں ہے محض لپٹی ہوئی ہے لیکن گرہ کے جنجال سے بے نیاز ہے۔ کمرے میں نہایت اجلی چاندنی کا فرش ہے۔ ایک طرف پلنگ بچھا ہواہے کبھی اس پر چادر ہے کبھی نہیں ہے۔ سرہانے تکیہ رکھا ہے۔ مگر اس کی رنگت کا بیان احاطہ تحریر سے باہر ہے۔ البتہ جس گاؤ تکیے سے مولوی صاحب لگے بیٹھے ہیں وہ بہت صاف ہے۔ قالین بھی عمدہ اور قیمتی ہے۔ اگر مولوی صاحب کی حالت دیکھ کر آپ سوال کر بیٹھیں کہ ’’مولانا! ایں چہ کار است کہ کردہ ای؟‘‘ تو انشاء اللہ یہی جواب ملے گا کہ ’’محتسب را درون خانہ چہ کار۔‘‘

جاڑوں میں مکان کے اوپر کے حصے میں رہتے تھے۔ چلئے وہاں کا بھی رنگ دکھا دوں۔ صدر دروازے سے ملا ہوا ہوا زینہ ہے۔ اور سیڑھیوں کے ختم ہونے پر غسل خانہ اور بیت الخلا ہے۔ اس کے بعد ایک دروازہ آتا ہے۔ دروازے سے گزر کر چھت پر آتے ہیں۔ سامنے ہی ایک کمرا ہے اوراس کے دونوں جانب کوٹھریاں۔ غسل خانے کے بالکل مقابل دوسری طرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ آخر آخر میں مولوی صاحب یہیں رہا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ہم پڑھتے تھے تو ان کی نشست سامنے والے بڑے کمرے میں تھی۔ یہاں بھی چاندنی کا فرش ہے، اس پر قالین، پیچھے گاؤ تکیہ۔ سامنے ایک چھوٹی نیچی میز، پہلو میں حقہ۔ اس کی حقیقت کما حقہ بیان کرنا مشکل ہے۔

مولوی صاحب کو حقے کا بہت شوق تھا مگر تمباکو ایسا کڑوا پیتے تھے کہ اس کے دھویں کی کڑواہٹ بیٹھنے والوں کے حلق میں پھندا ڈال دیتی تھی۔ فرشی قیمتی تھی مگر چلم پیسے کی دو والی اور نیچہ تو خدا کی پناہ! اس کے تیار ہونے کی تاریخ لوگوں کے دلوں سے مدت کی محو ہو چکی تھی۔ ایک آدھ دفعہ ایک صاحب نے نیچا بدلنے کا ارادہ بھی کیا مگر مولوی صاحب نے نیچے کو جورو کا مترادف قرار دے کر ایسا سخت فقرہ کسا کہ بے چارے ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔

خیر جاڑے کا موسم ہے۔ مولوی صاحب بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں۔ سر پر کنٹوپ ہے، مگر بڑا دقیانوسی کبھی کانوں کو ڈھکے ہوئے اور ڈوریاں نیچے لٹکتی ہوئیں، کبھی اس کے دونوں پاکھے اوپر کی طرف سیدھے کھڑے ہو کر لاٹ پادری کی ٹوپی کا نمونہ بن جاتے اور ڈوریاں طرے کا کام دیتیں۔ کبھی پاکھوں کو سر پر اوپر تلے ڈوریوں سے کس دیا جاتا اور اس طرح کنٹوپ، فلٹ کیپ کی شکل اختیار کر لیتا۔ جسم پر روئی کی مرزئی، مگر ایسی پرانی کہ اس کی روئی کی گرمی مدت سے مائل بہ سردی ہو چکی ہے۔ اوپر صندلی رنگ کا ڈھسا پڑا ہوا۔ لیجئے دیکھا آپ نے ہمارے مولوی صاحب کو!

چار بجے اور مولوی صاحب نے آواز دی! پانی تیار ہے؟ جواب ملا، جی ہاں۔ مولوی صاحب غسل خانے میں گئے، کپڑے بدل (یا یوں کہو کہ جون بدل) باہر نکل آئے اور چلے ٹاؤن ہال کو۔ اب یہ ہمارے مولوی صاحب نہیں رہے، آپ کے مولوی صاحب ہو گئے۔

گھر میں اس لباس سے استغنا کے کئی باعث تھے۔ اول تو یہ بات تھی کہ ان کواپنے کاموں ہی سے فرصت نہ تھی، پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے میں ان کا سارا دن گزر جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ بہت کم لوگوں سےمکان پر ملتے تھے۔ جس کو ملنا ہوتا تھا شام کو ٹاؤن ہال کی لائبریری میں ان سے جا کر مل آتا تھا۔ جو لوگ مکان پر آتے تھے، وہ یا تو ان کے شاگرد ہوتے تھے یا خود صاحب کمال اور ظاہر ہے کہ ایسے صحاب کمال لوگ ظاہری حالت کو نہیں دیکھتے، یہ دیکھتے ہیں کہ مولوی صاحب ہیں کتنے پانی میں۔ لباس سے اس بے اعتنائی کی تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے کسی دوسرے کا دولت خانہ نہیں جانتے تھے۔ ان کو جس طرح آرام ملتا اسی طرح رہتے۔ جی چاہتا پہنتے، نہ جی چاہتا نہ پہنتے، البتہ جب باہر جاتے تو ’کھائے من بھاتا، پہنے جگ بھاتا‘‘ پر عمل کرتے۔ اصل عالم تو گھر پر تھے۔ باہر نکل کر ظاہری عالم بھی بن جاتے۔

سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گھر میں کوئی عورت نہ تھی جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی، یا کم سے کم ان کا کنٹوپ، مرزئی یا سرہانے کے تکیے کا غلاف تو بدل دیا کرتی۔ گھر میں تھا کون، ایک مولوی صاحب، دوسرا ایک کانڑا ٹٹو، بدھو نفر، ان کا نوکر خدا بخش۔ وہ بھی ایسابے پروا کہ خدا کی پناہ! ظالم نے بہرا بن کر کام سے اور اپنا پیچھا چھڑا لیا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز جس سے مردے قبر میں چونک پڑیں، اس کو کبھی نہ سنائی دی اور جب تک کسی نے جا کر اس کا شانہ نہ ہلایا، اس نے ہمیشہ سنی کو ان سنی کر دیا۔

البتہ حقے کے معاملے میں بڑا تیز تھا۔ یا تو اس کو یہ خیال تھا کہ حقے بغیر مولوی صاحب کے ہاں گزارا ہونا مشکل ہے، یا یہ وجہ تھی کہ تمباکو زیادہ صرف کرنے میں اس کو دو ایک پیسے روز مل جاتے تھے۔ غرض یہ حال تھا کہ حقہ پورا سلگا بھی نہیں کہ وہ چلم اٹھا کر چلا۔ مولوی صاحب ’’ہاں ہاں‘‘ کرتے ہی رہے، اس نے جا چلم الٹ دی، دوسرا سلفہ رکھ، آگ بھر، چلم حقے پر لا کر رکھ دی۔ توا گرم، حقہ بھڑک گیا۔ میاں نوکر صاحب کو پھر بلا کر توا ٹھنڈا کرنے اور چلم بھروانے کی ضرورت پیش آئی۔ غرض سارے دن ان کا یہی کام تھا اور وہ اس میں خوش اور بہت مگن تھے۔

جرمنی کے مشہور فلسفی کانٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کاا س قدر پابند تھا کہ لوگ اس کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کر لیتے تھے۔ بعض یورپ پرست اس کی پابندی اوقات کو یورپ والوں کا ہی حصہ خیال کریں تو خیال کریں، میں تو یہ کہتا ہوں کہ صرف دہلی میں میں نے تین ایسے شخص دیکھے ہیں جو آندھی آئے، مینہ آئے، روزانہ چھے بجے ٹاؤن ہال کی لائبریری میں آتے تھے۔ ادھر انہوں نے لائبریری کے دروازے میں قدم رکھا، ادھر گھنٹا گھر نے ٹن ٹن چھے بجائے۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے ایک مشرق میں رہتا تھا تو دوسرا مغرب میں۔ یہ تین شخص کون تھے، ایک منشی ذکاء اللہ صاحب، دوسرے رائے بہادر پیارے لال صاحب اور تیسرے مولوی صاحب۔

ایک چیلوں کے کوچے سے آتا تھا، دوسرا دریبے سے اور تیسرا کھاری باولی سے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک نے آ کر دوسرے کا انتظار کیا ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک نہ آتا تو ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا کہ نہ آنے والا ایسا بیمار ہے کہ چلنا دشوار ہے اور یہ نتیجہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا او رکانوں سے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کو ان تینوں میں سے کسی سے ملنا ہوتا اور چھے بجے سے ذرا پہلے لائبریری کے کسی ملازم سے جا کر دریافت کرتا تو یہی جواب ملتا کہ اب آتے ہی ہوں گے، چھے میں دو ہی منٹ تو رہ گئے ہیں۔

دوسرے دو صاحبوں کا ٹائم ٹیبل تو مجھے معلوم نہیں البتہ مولوی صاحب کی مصروفیتوں کا حال لکھتا ہوں۔ ان کے اس نظام اوقات میں گرمی اور جاڑے کے لحاظ سے کچھ کچھ تغیر ہو جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ بہت سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔ گرمیوں میں اٹھتے ہی نہاتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر نماز پڑھتے۔ ان کی صبح کی اور عصر کی نماز کبھی ناغہ نہ ہوتی تھی، باقی کا حال اللہ کو معلوم ہے نہ میں نے دریافت کیا اور نہ مجھ سے کسی نے کہا۔ صبح کی نماز پڑھ کر کچھ تلاوت کرتے۔ ادھر ذرا دن چڑھا ادھر مولویوں کی جماعت اور خود مولوی صاحب کا ناشتا داخل ہوا۔ اس جماعت میں بخارا، کابل سرحد وغیرہ کے لوگ تھے۔

ان کی تعداد کوئی 15، 16 تھی۔ محنت ایسی کرتے تھے کہ دوسرا کرے تو مرجائے، لیکن ٹھوٹھ ایسے تھے کہ مولوی صاحب بھی زچ ہو جاتے تھے۔ خوش مذاقی تو انہیں چھوکر نہیں گئی تھی۔ خود مذاق کرنا تو کجا، دوسرے کا مذاق بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ متانت اور ادب کا یہ حال تھا کہ آنکھ اٹھا کر صاحب کو دیکھنا سوء ادبی سمجھتے تھے۔ اب ان کے وہ عمامے اونچے اونچے، یہ یہ لمبی ڈاڑھیاں دیکھو اور مولوی صاحب کی حالت کا اندازہ کرو، بچارے ناشتا کرتے جاتے تھے اور اپنا فرض اتارتے جاتے تھے۔ عالم تھے، دوسروں کو عالم بناتے تھے، لیکن کہا کرتے تھے کہ ان فتح پوری کے ملانوں کو پڑھا کر میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ کیا کہوں ’’میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع، میرا تیرا میل نہیں‘‘ کا نقشہ ہے۔

یہ جماعت اٹھی اور مولوی رحیم بخش صاحب آ نازل ہوئے۔ کاغذوں کا مٹھا بغل میں، ہاتھ میں پنسل، کان میں قلم۔ ادھر فتح پوری کی جماعت نے کمرے سے قدم نکالا، ادھر انہوں نے کمرے میں قدم رکھا۔ اب سلسلہ تصنیف و تالیف شروع ہوا۔ چونکہ آخر میں مولوی صاحب کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا تھا اس لئے لکھوانے کا کام اکثر انہیں سے لیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے کلام مجید اور حمائل شریف کی کاپیوں کی صحت کی جاتی۔ اس کے بعد مطبع کا حساب دیکھا جاتا اور پھر جدید تصنیفات کا سلسلہ شروع ہوتا۔ یہ کام سمیٹتے سمیٹتے ساڑھے گیارہ، پونے بارہ بج جاتے۔ رحیم بخش صاحب کےاٹھتے ہی کھانا آتا۔ کھانا کھایا پلنگ پر لیٹ گئے۔ ادھر ڈیڑھ بجا اور ادھر ہم دونوں داخل ہوئے۔ ہمارا قدم رکھنا تھا کہ مولوی صاحب اٹھ بیٹھے، سارھے تین بجے تک ہم سے سر مغزنی کرتے رہے۔ اگر کوئی دلچسپ بحث یا قصہ چھڑ گیا تو چار بج گئے۔

چار بجے اور مولوی صاحب غسل خانے میں گئے۔ نہائے دھوئے، کپڑے پہن نکل کھڑے ہوئے۔ پہلے شمس العارفین کی دکان پر ٹھہرے۔ یہاں بھی ان کا حساب کتاب تھا۔ وہاں کا کھاتا دیکھا، جو کچھ لینا دینا تھا، لیا دیا اور سیدھے ٹاؤن ہال کی لائبریری میں پہنچ گئے۔ سات بجے تک وہاں ٹھہرے، جس کو ملنا ہوا، وہ وہاں مل لیا۔ سات بجے وہاں سے اٹھ کر سراج الدین صاحب کی دکان پر آئے۔ یہاں بھی حساب کتاب کیا، عبد الرحمان کو پڑھایا۔ گھنٹا بھر یہاں ٹھہر کر مکان پہنچ گئے۔ کھانا کھایا، کچھ لکھا پڑا اور دس بجے سو رہے۔ جاڑے میں پروگرام میں یہ تبدیلی ہو جاتی تھی کہ پہلے صبح ہی صبح ہم پہنچتے تھے، اس کے بعد مولویوں کی جماعت آتی تھی۔ رحیم بخش صاحب کا نمبر سہ پہر میں آتا تھا۔

خوش خوراک تھے اور مزے لے لے کر کھانا کھاتے تھے۔ ناشتے میں دو نیم برشت انڈے ضرور ہوتے تھے۔ میوے کا بڑا شوق تھا۔ ناشتے اور کھانے کے ساتھ میوے کا ہونا لازم تھا۔ پڑھاتے جاتے تھے، مگر مجھ کو ایک حسرت رہ گئی کہ کبھی شریک طعام نہ ہو سکا۔ خیر ان پٹھانوں کی جماعت کی تو کیا صلا کرتے۔ ان کے لئے تو مولوی صاحب کا ناشتہ، اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو جاتا، البتہ ہم دونوں کی صلا نہ کرنا غضب تھا۔ کہتے بھی جاتے تھے، بھئی کیا مزے کا خربوزہ ہے! میاں، کیا مزے کا آم ہے! مگر بندہ خدا نے کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا ذرا چکھ کر تو دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں نے تو تہیہ کر لیا تھا (میاں دانی اب انکار کریں تو کریں، لیکن ان کا بھی یہی ارادہ تھا) کہ مولوی صاحب اگر جھوٹے منہ بھی شریک ہونے کو کہیں، تو ہم سچ مچ شریک ہو جائیں۔

مولوی صاحب کو مسلمانوں میں تجارت پھیلانے کا شوق تھا اور اس غرض کے حاصل کرنے میں ان کو مالی مدد دینے میں کبھی انکار نہ ہوتا تھا۔ بے دریغ روپیہ دیتے تھے اور اکثر بڑی بڑی رقمیں ڈبو بیٹھتے تھے۔ کہا کرتے تھے، ’’میاں! میں سچ کہتا ہوں کہ اس تجارت کے شوق میں تین لاکھ روپے کھو بیٹھا ہوں۔ پھر بھی جوکچھ مجھے بعض کھرے دکان داروں سے فائدہ پہنچا ہے اس نے میرے نقصان کی تلافی ہی نہیں کردی بلکہ کچھ نفع ہی پہنچا دیا۔ بیٹا! تم بھی تجارت کرو، روپیہ میں دیتا ہوں۔ نوکری کی کھکھیڑ اٹھاؤ گے، تو مزا معلوم ہوگا۔‘‘

جس طرح روپیہ دل کھول کر دیتے تھے اسی طرح حساب بھی بڑی سختی سے لیتے تھے۔ گرمی ہو یا جاڑا، دھوپ ہو یا مینہ، قرض داروں کے ہاں ان کا روزانہ چکر نہیں چھوٹتا تھا۔ گئے اور جاتے ہی پہلے غلق پر قبضہ کیا، اس کے بعد کھاتا دیکھا، کِروی دیکھی۔ سامان دیکھ کر بکری کا اندازہ کیا، روپیہ جیب میں ڈالا، سلام علیکم وعلیکم السلام کیا اور چل دیے۔

دوسرے دوکاندار کے پاس پہنچے اور وہاں بھی وہی پہلا سبق دہرایا۔ کوڑی کوڑی کا حساب دیکھتے، اعتراضوں کی بوچھاڑ سے پریشان کرتے اور کہتے جاتے، ’’بھئی، حساب جو جو، بخشش سو سو۔‘‘ فقرے کے پہلے جزو سے تو بچاروں کو روزانہ واسطہ پڑتا، لیکن دوسرے جزو کا دیکھنا کبھی کسی کو نصیب نہ ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ اگر واقعی بازار کے مندا ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے کسی قرض دار کا نقصان ہو جاتا یا دیوالیہ نکل جاتا، تو پھر اس قرضے کا ذکر زبان پر نہ لاتے۔

ان کو خیال تھا کہ دہلی کے پنجابی تجارت کو خوب سمجھتے ہیں، ان کو دل کھول کر روپیہ دیتے تھے اور اکثر انہیں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک صاحب جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں، مولوی صاحب کے پاس آئے۔ تجارت کا ذکر چھیڑا اور مولوی صاحب کو ولایتی جوتوں کے فائدے کے وہ سبز باغ دکھائے کہ تیسرے ہی روز بلا کسی طمانیت کے، گیارہ ہزار روپے کا چک مولوی صاحب نے ان کے نام لکھ دیا۔ بڑے ٹھاٹھ سے سنہری مسجد کے قریب دکان کھولی گئی۔ مولوی صاحب جاتے، گھڑی دو گھڑی وہاں بیٹھتے، دکاندار صاحب کی لچھے دار باتیں سنتے، چلتے وقت کچھ روپے جیب میں ڈالنے کو مل جاتے، اس لئے خوش خوش بغیر حساب کتاب کئے گھر آ جاتے۔ یہی ٹھوکر تھی جس نے مولوی صاحب کو چوکنا کر دیا ور وہ بغیر حساب کتاب دیکھے، روپے کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے تھے۔

قصہ مختصر، اصل میں سے دو ڈھائی ہزار روپیہ مولوی صاحب کو تھما، اس نے دیوالیہ نکال دیا۔ قرقی ہوئی، مال نیلام چڑھا اوراس میرے یار نے کل سامان دوسروں کے ذریعے خود خرید لیا۔ مولوی صاحب کو اس چال کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس کے بعد آیا، بہت رویا، بہت ٹسوے بہائے۔ مولوی صاحب سمجھے بچارے کو بڑا رنج ہوا۔ کہا، جاؤ بھئی جاؤ، تجارت میں یہی ہوتا ہے، یا اس پار یا اس پار۔ چلو گئی گزری بات ہوئی۔

ایک روز خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ یہ چاوڑی میں جا رہے تھے، کچھ جھٹپٹا ہوا تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دکاندار صاحب خوب پیے ہوئے، عطر میں بسے، پھولوں کا کنٹھا گلے میں ڈالے، ایک رنڈی کا ہاتھ پکڑے، کوٹھے سے اترے اور آکر ایک کھلی گاڑی میں سوار ہوئے۔ مولوی صاحب نے جو یہ رنگ دیکھا و وہیں ٹھٹک گئے۔ اتنے میں انہوں نے بھی مولوی صاحب کو دیکھا، بہت مسکرا کر سلام کیا، رنڈی نے چپکے چپکے کچھ دریافت کیا، تو ایک قہقہہ لگایا اور اونچی آواز میں کہا، ’’یہ سب کچھ مولوی صاحب ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘ مولوی صاحب کے آگ لگ گئی۔ دوسرے ہی دن نالش ٹھونک دی اور آخر ٹھکانے لگا کر دم لیا۔ لوگوں نے سفارشیں بھی کیں، انہوں نے خود بھی آ کر بہت کچھ توبہ تلا کی لیکن یہ نہ ماننا تھا نہ مانے اور آخر جب اس کو کھک کر دیا، اس وقت ان کو چین آیا۔

دین لین سب کچھ کرتے تھے مگر حساب کتاب صرف دوسروں کی کتابوں یا ان کے دل میں تھا، کچھ تھوڑا بہت، لوگوں کے کہنے سننے سے متفرق پرچوں پر لکھ بھی لیا تھا لیکن اتنے بڑے بیوپار کے لئے جیسا دفتر چاہئے، وہ انہوں نے نہ رکھنا تھا نہ رکھا۔ سود لینا وہ جائز سمجھتے تھے۔ اگر کوئی حجت کرتا تو مارے تاویلوں کے اس کا ناطقہ بند کر دیتے۔ ایک تو حافظ دوسرے عالم، تیسرے لسان، بھلا ان سے کون اور آ سکتا تھا۔ اور تو اور خود مجھ سے سود لینے کو تیار ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم پر متفرق قرضے تھے، خیال آیا کہ ایک جگہ سے قرض لے کر سب کو ادا کر دیا جائے۔ قرضہ کس سے لیا جائے یہ ذرا ٹیڑھا سوال تھا۔ ہر پھر کر مولوی صاحب ہی پر نظر جاتی تھی۔ آخر ایک دن جی کڑا کر کے میں نے مولوی صاحب سے سوال کر ہی دیا۔ کہنے لگے، کتنا روپیہ چاہئے؟ میں نے کہا، بارہ ہزار۔ بولے، ضمانت؟ میں نے کہا، چوڑی والوں والا مکان۔ پوچھا، کتنی مالیت کا ہے؟ میں نے کہا، کوئی ساٹھ ستر ہزار روپے کا۔ فرمایا، کل قبالہ لیتے آنا۔ میں نے دل میں سوچا، چلو چھٹی ہوئی، بڑی جلدی معاملہ پٹ گیا۔

دوسرے دن قبالہ لے کر پہنچا۔ پڑھ کر کہا، ٹھیک ہے، مگر بیٹا سود کیا دوگے؟ میں نے کہا، مولوی صاحب آپ اور سود؟ کہنے لگے، کیوں، اس میں کیا ہرج ہے؟ میں نہ دوں گا تو کسی ساہوکار سے لوگے، اس کو خوشی سے سود دوگے۔ ارے میاں! مجھے کچھ فائدہ پہنچاؤ گے تو دین دنیا دونوں میں بھلا ہوگا۔ آخر میں تمہارا استاد ہوں یا نہیں! میرا بھی کچھ حق تم پر ہے یا نہیں؟ جاؤ شاباش بیٹا! اپنے چچا سے جا کر تصفیہ کر آؤ، کل ہی چک بنگال بنک کے نام لکھے دیتا ہوں۔ میں نے کہا، مولوی صاحب! لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی ہو کر سود لیتے ہیں، اور لیتے ہیں کس سے، اپنے شاگردوں سے۔ کہنے لگے، اس کی پروا نہ کرو۔ جب مجھ پر کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے تو اب مجھے ڈر ہی کیا رہا، جاؤ تمہارے ساتھ یہ رعایت کرتا ہوں کہ اوروں سے روپیہ سیکڑا لیتا ہوں، تم سے چودہ آنے لوں گا۔

میں نے آ کرگھر میں ذکر کیا۔۔۔ ہم کو دوسری جگہ سے آٹھ آنے سیکڑے پر روپیہ مل گیا، اس لئے یہ معاملہ یوں کا یوں ہی رہ گیا۔

لیجئے، یہ قصہ تو سنا چکا، اب اصل کہانی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کے واقعات جو ان کی زبانی سنے تھے، بیان کرتا ہوں۔

ایک روز مولوی صاحب معلقات پڑھا رہے تھے، عمر بن کلثوم کا قصیدہ تھا، جب اس شعر پر پہنچے،

ابا ہند فلا تعجل علینا

وانظرنا نخبرک الیقینا

تو بہت ہنسے، کتاب رکھ دی اور ہنستے ہنستے لوٹ گئے۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ الہی یہ کیا ماجرا ہے! شعر میں تو کوئی ہنسی کی بات نہیں پھر مولوی صاحب کو یہ کیا مرض اٹھا ہے۔ آخر جب ہنسنے کا ذرا زور کم ہوا، تو وجہ دریافت کی۔ مولوی صاحب پھر ہنسنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد سنبھل کر بولے، میاں! بعض شعر قصہ طلب ہوتے ہیں۔ یہ شعر میری زندگی کے قصے کا آغاز ہے۔ اچھا لو، سناتا ہوں مگر پہلے تمہید سن لو۔

بھئی ہم بہت غریب لوگ تھے، نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو کپڑا۔ تعلیم کا شوق تھا اس لیے پھرتا پھراتا پنجابیوں کے کٹرے کے مسجد میں ٹھہر گیا۔ یہاں کے مولوی صاحب بڑے عالم تھے، ان سے پڑھتا اور توکل پر گزارا کرتا۔ مولوی صاحب کے دو چار شاگرد اور بھی تھے، انہیں بھی پڑھاتے تھے، مجھے بھی پڑھاتے۔ دن رات پڑھنے کے سوا کچھ کام نہ تھا۔ تھوڑے دنوں میں کلام مجید پڑھ کر میں نے ادب پڑھنا شروع کیا۔ چار پانچ برس میں معلقات پڑھنے لگا۔ گو عمر میری بارہ سال کی تھی، مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے نو دس برس کامعلوم ہوتا تھا۔

پڑھنے کے علاوہ میراکام روٹیاں سمیٹنا بھی تھا۔ صبح ہوئی اور میں چھڑی ہاتھ میں لے کر گھر گھر روٹیاں جمع کرنے لگا۔ کسی نے رات کی بچی ہوئی دال ہی دے دی، کسی نے قیمے کی لگدی ہی رکھ دی، کسی نے دو تین سوکھی روٹیوں ہی پر ٹرخایا، غرض رنگ برنگ کا کھانا جمع ہو جاتا۔ مسجد کے پاس ہی عبد الخالق صاحب کا مکان تھا، اچھے کھاتے پیتے آدمی تھے۔ انہیں کے بیٹے ڈپٹی عبد الحامد صاحب ہیں جو سامنے والے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے ہاں میرا قدم رکھنا مشکل تھا۔ ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا، ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی۔ جب تک سیر دو سیر مسالا مجھ سے نہ پسوا لیتی، نہ گھر سے نکلنے دیتی، نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی۔ خدا جانے کہاں سے محلے بھر کا مسالا اٹھا لاتی تھی۔ پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے تھے۔ جہاں میں نے ہاتھ روکا، اس نے بٹا انگلیوں پر مارا، بہ خدا جان سی نکل جاتی تھی۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی دفعہ شکایت بھی کی مگر انہوں نے ڈال دیا۔ خبر نہیں مجھ سے کیا دشمنی تھی، چلتے چلتے تاکید کر دیا کرتے تھے کہ عبد الخالق صاحب کے مکان میں ضرور جانا۔

بہر حال مارا دھاڑی روز وہاں جانا پڑتا اور روز یہی مصیبت جھیلنی پڑتی۔ تم سمجھے بھی کہ یہ لڑکی کون تھی؟ میاں! یہ لڑکی وہ تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئیں۔ جب سوچتا ہوں تو پچھلا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ اکثر ہم دونوں پہلی باتوں کو یاد کر کے خوب ہنستے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے۔ جیسی بچپن میں شریر تھیں، ویسی ہی جوانی میں غریب ہو گئیں۔ ان کے مرنے کے بعد ہماری تو زندگی کا مزا جاتا رہا۔ بھئی دیکھنا، میں نے کیسے مزے کی تاریخ کہی ہے! اس کے بعد انہوں نے عربی کے چار پانچ اشعار کا قطعہ سنایا، مادہ تاریخ لہا غفر تھا۔ میں نے بڑی زور سے ’اوں ہوں‘ کی۔ بگڑ کر میری طرف دیکھا اور کہا، آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے؟ میں نے عرض کی، جی نہیں، لیکن اس قطعے کو سن کر مجھے دبیر کی ایک رباعی یاد آ گئی، کیا خوب لکھی ہے، فرماتے ہیں،

ہم شان ِنجف نہ عرش ِانور ٹھہرا

میزاں میں یہ بھاری، وہ سبک تر ٹھہرا

اس پلے میں تھا نجف اور اس پلے میں عرش

پہنچا وہ فلک پر، یہ زمین پر ٹھہرا

بڑے غور سے سنتے رہے، پھر کہنے لگے، یہ تو بے معنی ہے۔ نجف کی جگہ دنیا کی جس چیز کو رکھ دو، اس سے یہ رباعی متعلق ہو جائے گی اور وہ عرش سے بھاری ثابت ہوگی۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے قطعے کو اس سال میں مرنے والی جس عورت سے متعلق کر دو، متعلق ہو جائے گا۔ اس تاریخ میں خوبی ہی کیا ہے۔ اول تو ایسی عام تاریخیں کچھ قابل تعریف نہیں ہوتیں۔ دوسرے سر سید کی تاریخ انتقال غفر لہ پر آپ نے صرف الف کا اضافہ کر کے اس کا پنا مال کر لیا ہے۔ مسکرا کر کہنے لگے، اچھا بھئی تو ہی سچا سہی، اب اس جھگڑے کو چھوڑ و اور میری اصل کہانی کو لو۔

ہاں تو فرصت کے وقت ہم دہلی کی گلیوں کا چکر لگاتے، کبھی کبھی کشمیری دروازے کی طرف بھی نکل جاتے۔ ایک روز جو کشمیری دروازے کی طرف گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ دہلی کالج میں بڑا ہجوم ہے۔ کالج وہاں تھا جہاں اب گورنمنٹ اسکول ہے۔ میں بھی بھیڑ میں گھس گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکوں کا امتحان لینے مفتی صدر الدین صاحب آئے ہوئے ہیں۔ ہم نے کہا، چلو، ہم بھی دیکھیں۔ بر آمدے میں پہنچا، قد چھوٹا تھا، لوگوں کی ٹانگوں میں سے ہوتا ہوا، گھس گھسا کر کمرے کے دروازے تک پہنچ ہی گیا۔ دیکھا کہ کمرے کے بیچ میں میز بچھی ہے، اس کے سامنے کرسی پر مفتی صاحب بیٹھے ہیں۔ ایک ایک لڑکا آتا ہے، اس سے سوال کرتے ہیں اور سامنے کاغذ پر کچھ لکھتے جاتے ہیں۔ میز کے دوسرے پہلو کی کرسی پر ایک انگریز بیٹھا ہے، یہ مدرسے کے پرنسپل صاحب تھے۔

تماشے میں محو تھا کہ صاحب کسی کام کے لئے اٹھے، چپراسیوں نے رستہ صاف کرنا شروع کیا۔ جو لوگ دروازہ روکے کھڑے تھے، وہ کسی طرح پیچھے نہ ہٹتے تھے، چپراسی زبر دستی ڈھکیل رہے تھے۔ غرض اس دھکا پیل میں میرا قلیہ ہو گیا۔ دروازے کے سامنے سنگ مرمر کا فرش تھا، اس پر میرا پاؤں رپٹا اور دھم سے گرا۔ اتنی دیر میں پرنسپل صاحب بھی دروازے تک آ گئے تھے۔ انہوں نے جو مجھے گرتے دیکھا، تو دوڑ کر میری طرف بڑھے، مجھے اٹھایا، پوچھتے رہے کہ کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ ان کی شفقت آمیز باتیں اب تک میرے دل پر کالنقش فی الحجر ہیں۔

باتوں باتوں ہی میں پوچھا، میاں صاحب زادے کیا پڑھتے ہو؟ میں نے کہا، معلقات۔ ان کو بڑا تعجب ہوا۔ پھر پوچھا، میں نے پھر وہی جواب دیا۔ میری عمر پوچھی۔ میں نے کہا مجھے کیا معلوم۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ بجائے اپنے کام کو جانے کے، سیدھا مجھ کو مفتی صاحب کے پاس لے گئے اور کہنے لگے، مفتی صاحب! یہ لڑکا کہتا ہے میں معلقات پڑھتا ہوں، ذرا دیکھئے تو سہی، سچ کہتا ہے یا یوں ہی باتیں بناتا ہے۔ مفتی صاحب نے کہا، تو کیا پڑھتا ہے؟ میں نے کہا، معلقات۔ کہنے لگے، کہاں پڑھتا ہے؟ میں نے کہا، پنجابیوں کے کٹرے کی مسجد میں۔ پھر کہا معلقات دوں، پڑھے گا؟ میں نے کہا لائیے۔ انہوں نے میز پر سے کتاب اٹھائی، میرے ہاتھ میں دی اور کہا یہاں سے پڑھ۔ جس شعر پر انہوں نے انگلی رکھی تھی، وہ یہی شعر تھا،

ابا ہند فلا تعجل علینا

وانظر نا نخبرک الیقینا

میں نے پڑھا، معنی بیان کئے۔ انہوں نے ترکیب پوچھی، وہ بیان کی۔ میاں دانی! تمہاری طرح میں نے شعر نہیں پڑھا تھا۔ اور میاں فرحت! تمہاری طرح ترکیب نہیں کی تھی (مولوی صاحب کا یہ اشارہ ہماری کمزوریوں کی طرف تھا، اس کا ذکر آئندہ آئے گا۔) مفتی صاحب بہت چکرائے، پوچھنے لگے، تجھ کو کون پڑھاتا ہے؟ میں نے کہا، مسجد کے مولوی صاحب۔ کہا، مدرسے میں پڑھے گا؟ میں نے کہا ضرور پڑھوں گا۔ مفتی صاحب نے قلم اٹھایا، کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور پرنسپل صاحب کو دے کرکہا، اس کو پریسیڈنٹ صاحب کے پاس پیش کر دینا۔ ہم وہاں سے نکل کر اپنے گھر آئے، مولوی صاحب سے کچھ نہ کہا۔

کوئی سات آٹھ روز کے بعد کالج کا چپراسی مولوی صاحب کے پاس آ، ایک کاغذ دے گیا، اس میں لکھا تھا کہ نذیر احمد کو کالج میں داخل کرنے کی اجازت ہو گئی ہے، کل سے آپ اس کو کالج میں آنے کی ہدایت کر دیجئے، اس کا وظیفہ بھی ہو گیا ہے۔ چپراسی تو یہ حکم دے چلتا بنا، مولوی صاحب نے مجھ کو بلایا، خط دکھایا، پوچھا، یہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ جب ذرا سختی کی، تو تمام واقعہ بیان کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور دوسرے روز لے جا میرا ہاتھ پرنسپل صاحب کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس زمانے میں سید احمد خاں فارسی کی جماعت میں، منشی ذکاء اللہ حساب کی جماعت میں اور پیارے لال انگریزی کی جماعت میں پڑھتے تھے۔ میں عربی کی جماعت میں شریک ہوا۔ ایک تو شوق، دوسرے پڑھانے والے ہوشیار، تیسرے ایک مضمون اور وہ بھی ایسا جس کا مجھے بچپن سے شوق تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اپنی جماعت والوں میں سب کو دبا لیا۔ اب جب کبھی یہ شعر پڑھتا ہوں، تو پہلا زمانہ یادآ جاتا ہےاور میں بے اختیار ہنسنے لگتا ہوں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے لہک لہک کر یہ شعر،

ابا ہند فلا تعجل علینا

وانظرنا نخبرک الیقینا

پڑھنا اور ہنسنا شروع کیا۔

میں نے کہا، مولوی صاحب! آپ کی جماعت کہاں بیٹھی تھی؟ کہنے لگے، پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرا ہے، اس میں ہماری جماعت تھی۔ دوسرے پہلو میں جو کمرا ہے اس میں فارسی کی جماعت۔ دانی نے کہا، مولوی صاحب! آپ کے اختیاری مضمون کیا تھے۔ مولوی صاحب ہنسے اور کہا، میاں دانی! ہم پڑھتے تھے، آج کل کے طالب علموں کی طرح چوتڑوں سے گھاس نہیں کاٹتے تھے (مولوی صاحب اس فقرے کا اکثر استعمال کیا کرتے تھے، معلوم نہیں کہاں کا محاورہ ہے) ارے بھئی! ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔ آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔ آج پڑھا کل بھولے، تمہاری تعلیم ایسی دیوار ہے جس میں گارے کا بھی ردا ہے، ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی گئی ہیں، مٹی بھی ہے، پتھر بھی ہے، کہیں چونا اور اینٹ بھی ہے۔ ایک دھکا دیا اور اڑا اڑا دھم گری۔ ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے مگر اس میں کامل کر دیتے تے۔ پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکلیان نہیں ہوتے تھے۔ ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا جن کے سامنے آج کل کے عالم، محض کاٹھ کے الو ہیں۔ اچھا بھئی اچھا، آگے چلو۔

بانا نورد الرايات بیضا

و نصدر ہن حمرا قد روینا

میں نے کہا، مولوی صاحب پہلے شعر کے معنی تو رہ ہی گئے۔ کہنے لگے، اتنا بڑا قصہ سنا دیا ور اس کے بعد بھی اس شعر کے معنی کی ضرورت ہے۔ پس اس کے یہی معنی ہیں کہ تحقیق ایک ملا کا بیٹا ڈاکٹر، ڈپٹی، شمس العلماء، ایل ایل ڈی ہو گیا ساتھ آسانی کے، بیچ اسی دلی کے، بہ وجہ شعر کے۔

مولوی صاحب کی تعلیم کا حال سن چکے، ہم ہماری تعلیم کا حال سنیئے اور قصے کو سراج الدین صاحب کی دکان کے واقعے کے دوسرے روز سے لیجئے۔

میں اور میاں دانی ساڑھے گیارہ بجے مدرسے سے ا ٓئے۔ کھانا وانا کھایا، سبق کا مطالعہ کیا اور ایک بجے نکل کھڑے ہوئے۔ مکان کا پتا پوچھتے پچھاتے ڈیڑھ میں پانچ منٹ تھے کہ مولوی صاحب کے دروازے پر جا دھمکے۔ دروازے کی ایک چوکی پر میں اور دوسری پر میاں دانی ڈٹ گئے۔ سامنے ہی کمرا تھا۔ بی چماری رسی ہاتھ میں لیے اونگھ رہی تھیں۔ کبھی کبھی رسی کو ایک آدھ جھٹکا دے دیتی تھیں۔ کمرے کے اندرمولوی صاحب تھے، لیکن دروازہ بند تھا، ا س لئے دکھائی نہ دیتے تھے۔ اب یہ خیال ہوا کہ یہ مولوی صاحب ہی کا مکان ہے یا کسی دوسرے کا۔ اندر زنانہ تو نہیں ہے! غرض اس شش و پنج میں تھے کہ مولوی صاحب کے کمرے کے گھنٹے نے ٹن سے ڈیڑھ بجایا۔ ہم دونوں اٹھے اور دبے پاؤں چوروں کی طرح اندر داخل ہوئے۔

گھر میں سناٹا تھا۔ بی چماری نے سر بھی اٹھا کر نہ دیکھا کہ کون جا رہا ہے۔ کمرے کا ایک دروازہ کھلا تھا اس میں گردن ڈال کر جھانکا۔ چونکہ روشنی سے اندھیرے میں آئے تھے اس لئے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اندر سے کسی نے ڈانٹ کر کہا، کون ہے؟ اس آواز کو پہچان کر ہم تو سنبھل گئے مگر بی چماری اچھل پڑیں اور بے اختیار ان کے منہ سے گنبد کی آواز کی طرح نکلا، کون ہے؟ میں نے کہا، میں اور دانی۔ مولوی صاحب نے کہا، آؤ بیٹا اندر آؤ۔ مولوی صاحب فوراً پلنگ پر اٹھ بیٹھے اور تہمد کو سنبھالتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ پوچھا، کیا پڑھتے ہو؟ ہم نے کتاب پیش کی۔ تھوڑی دیر تک الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، اس کے بعد کہا، بھئی ایک کتاب میرے لئے بھی لیتے آنا۔ ہم نے اپنی ایک کتاب ان کو دے دی اور دوسری دونوں نے مل کر کام نکالا۔ کب پڑھایا اور کس طرح پڑھایا، اس کا میں آئندہ ذکر کروں گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب پڑھ کر اٹھے تو سب کچھ یاد تھا، مگر دماغ پر کسی قسم کا بار نہ تھا۔ خوشی خوشی گھر آئے، چلو اللہ دے اور بندہ لے۔

ہم نے بھی کالج میں مولوی صاحب کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ یہاں تک کہ یہ آواز ہندو کالج کے طلبہ کے کان تک پہنچی۔ وہاں کے ایک طالب علم مسٹر رضا کے دل میں گدگدی اٹھی، وہ آئے، ہم سے ملے اور کہا، بھئی میں بھی تمہارے ساتھ چلوں، مولوی صاحب انکار تو نہ کریں گے؟ ہم نے کہا، بھائی چلو اور ضرور چلو، مولوی صاحب کا کیا بگڑتا ہے، دو کو نہ پڑھایا تین کو پڑھایا۔ انہوں نے کہا، نہیں، پہلے مولوی صاحب سے پوچھ لو، ہم نے کہا، یار چلو بھی، اگر انہوں نے کچھ کہا، تو ہمارا ذمہ۔ وہ راضی نہ ہوئے اور یہی کہا کہ پہلے پوچھ لو۔

اس عرصے میں ہماری ہمت مولوی صاحب کے سامنے بہت بڑھ گئی تھی۔ دوسرے دن جاتے ہی رضا کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، لیتے کیوں نہ آئے۔ ہم نے کہا، وہ ذرا شرمیلے ہیں، بغیر اجازت آنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا، طالب علم شرمیلا ہوا اور ڈوبا۔ خیر کل ضرور ساتھ لانا، ذرا ان کا بھی رنگ دیکھ لوں۔ شام کو واپسی کے وقت جاتے جاتے فراش خانے میں ہم نے رضا کومولوی صاحب کا اجازت نامہ پہنچا دیا اور کہہ دیاکہ بھئی پورے ڈیڑھ بجے پہنچ جانا ورنہ اندر گھسنا نہ ملے گا۔

دوسرے دن جو ہم پہنچے تو وہ پہلے ہی سے دروازے پر ڈھئی دیے بیٹھے تھے۔ ٹھیک ڈیڑھ بجے ہم اندر داخل ہوئے۔ مولوی صاحب ہم کو دیکھتے ہی پلنگ پر اٹھ بیٹھے اور کہا، لاؤ کتاب۔ ہم نے کتاب طاق پر سے اتار ان کے ہاتھ میں دی اور وہ کتاب لیتے لیتے نیچے آ بیٹھے اور کہا، اچھا، یہ ہیں میاں رضا! بے چارے رضا نے گردن جھکا کر کہا، جی ہاں۔ مولوی صاحب نے کہا، اچھا بھئی شروع کرو۔

ہمارے پڑھنے کا یہ طریقہ تھا کہ ایک روز میں پڑھتا تھا، دوسرے روز میاں دانی۔ اب اس کو ہماری شرارت کہو یا محض اتفاق۔ ہم دونوں چپکے بیٹھے رہے۔ جب اس خاموشی نے طول کھینچا تو مولوی صاحب نے کہا، ارے بھئی، آج تم پڑھتے کیوں نہیں؟ کیا منہ میں گھنگنیاں بھر کر آئے ہو۔ اچھا میاں رضا! تم ہی شروع کرو۔ رضا نے صفحہ پوچھا اور پڑھنا شروع کیا، اگر اعراب کی غلطیاں مجھ سے کم کیں، تو نظم کو نثر میاں دانی سے زیادہ بنا دیا۔ ایک آدھ شعر تک تو مولوی صاحب چپکے سنتے رہے، اس کے بعد کہنے لگے، بھئی واہ! ہم کو بھی عجب نمونے کے شاگرد ملے ہیں۔ میاں رضا! اگر ہم تم کو ایک نیک صلاح دیں، تو مانو گے؟ رضا نے نہایت شرمیلی آواز میں گردن جھکا کر کہا! بہ سرو چشم۔

مولوی صاحب نے کہا دیکھو، اپنے وعدے سے پھر نہ جانا! انہوں نے کہا، جی نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا، اچھا تو میری صلاح یہ ہے کہ کل سے تم میرے ہاں نہ آنا۔ یہ سن کر وہ بچارے کچھ پژمردہ سے ہو گئے۔ مولوی صاحب نے کہا، بھئی رضا! میں یہ نہیں کہتا کہ میرے ہاں آنا ہی چھوڑ دو، میں تم کو بھی ضرور پڑھاؤں گا، مگر تم دس پندرہ روز شام کے وقت کالی جان کے ہاں تعلیم میں ہو آیا کرو۔ اتنے دنوں کے آنے جانے میں تمہارے کانوں کو نظم اور نثر کا فرق معلوم ہونے لگے گا۔ بھئی مجھ سے تو شعروں کے گلے پر چھری پھیرتے دیکھا نہیں جاتا۔ بچارے متنبی کو کیا خبر تھی کہ بتاشوں کی گلی میں نذیر احمد کے کمرے میں اس کے اشعار مولوی رضا صاحب اس طرح حلال کریں گے۔ بچارے رضا کے سر پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ خدا خدا کر کے سبق ختم ہوا اور ہم سب رخصت ہوئے۔ راستے میں ہم نے ان کو بہت بنایا، دوسرے روز سے وہ ایسے غائب ہوئے کہ پھر شکل نہ دکھائی۔

مسٹر رضا کی حیا کا حال تو سن چکے، اب ہماری بے حیائی کی داستان سنیئے۔ میری صرف و نحو بہت کمزور تھی، اور کمزور کیوں نہ ہوتی، شروع کیے ہوئے کے دن ہوئے تھے۔ اعراب میں ہمیشہ غلطی کرتا تھا۔ نثر کو تو سنبھال لیتا تھا مگر نظم میں دقت پڑتی تھی۔ شعر خود بھی کہتا تھا، دوسروں کے ہزاروں شعر یاد تھے اس لیے شعر کو تقطیع سے گرنے نہ دیتا تھا۔ میاں دانی کی حالت اس کے بالکل بر عکس تھی، وہ اعراب کی غلطی نہ کرتے تھے مگر شعر کو نثر کر دیتے تھے۔ سکتے تو کیا جھٹکے پڑ جاتے تھے۔ مولوی صاحب ہم دونوں کے پڑھنے سے بہت جز بز ہوتے تھے۔

ایک دن یہ ہوا کہ میرے پڑھنے کی باری تھی۔ میں نے ایک شعر پڑھا، معلوم نہیں کہاں کے اعراب کہاں لگا گیا۔ مولوی صاحب نے کہا، کیا پڑھا؟ میں سمجھا کہ اعراب میں کہیں غلطی ضرور ہوئی۔ تمام اعراب بدل کر شعر موزوں کر دیا۔ انہوں نے پھر بڑے زور سے ’’ہوں‘‘ کی۔ ہم نے پھر اعراب بدل دیے۔ اس سے ان کو غصہ آ گیا، دانی! تم تو پڑھو۔ انہوں نے شعر کا گلا ہی گھونٹ دیا، خاصے بھلے چنگے شعر کو نثر بنا دیا۔ اب کیا تھا مولوی صاحب کا پارا ایک سو دس ڈگری پر چڑھ گیا۔ کتاب اٹھا کر جو پھینکی تو کمرے سے گزر دالان میں ہوتی ہوئی صحن میں پہنچی اور نہایت غصیلی آواز میں کہا، نکل جاؤ بھی میرے گھر سے نکل جاؤ۔ نہ تم مجھ سے پڑھے کے قابل ہو اور نہ میں تمہارے پڑھانے کے لائق۔

دانی نے میری طرف دیکھا، میں نے دانی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں کہا، چلو۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا، ہرگز نہیں۔ انہوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا، میں نے ان کا زانو دبایا۔ مولوی صاحب کی یہ حالت تھی کی شیر کی طرح بپھر رہے تھے۔

آخر جب دیکھا کہ یہ لونڈے ٹس سے مس نہیں ہوتے تو کہنے لگے کہ اب جاتے ہو یا نہیں! میں نے کہا، مولوی صاحب جب تک کوئی دھکے دے کر نہ نکالے گا، اس وقت تک تو ہم جاتے نہیں اور جائیں گے تو ابھی پھر آجائیں گے۔ مولوی صاحب نے جو یہ بے حیائی دیکھی تو ذرا نرم ہوئے، کہنے لگے، اچھا نہیں جاتے ہو تو نہ جاؤ مگر میں ایک حرف تم کو نہ پڑھاؤں گا۔ میں نے کہا، نہ پڑھائیے، مگر بغیر پڑھے ہم یہاں سے ٹلے ہیں نہ ٹلیں گے۔

کہنے لگے، بیٹا! اس وقت میری طبیعت خراب ہو گئی ہے، اب چلے جاؤ کل آ جانا۔ دانی نے سچ جانا۔ میں سمجھا کہ اس وقت اٹھے اور مولوی صاحب ہاتھ سے گئے۔ دانی اٹھ کھڑے ہوئے، میں نے پکڑ کر ان کو بٹھا لیا۔ مولوی صاحب یہ تماشا دیکھتے رہے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب پڑھیں گے تو آج پڑھیں گے اور آج پڑھیں گے تو اس وقت پڑھیں گے۔ پڑھانا ہے تو پڑھائیے ورنہ ہم کو یہاں سے نہ جانا ہے نہ جائیں گے۔

آخر کار ہم جیتے اور مولوی صاحب ہارے، کہنے لگے، خدا محفوظ رکھے! تم جیسے شاگرد بھی کسی کے نہ ہوں گے۔ شاگرد کیا ہوئے، استاد کے استاد ہو گئے۔ اچھا بھئی میں ہارا، میں ہارا۔ اچھا خدا کے لئے کتاب اٹھا لاؤ اور سبق پڑھ کر میرا پنڈ چھوڑو۔ دیکھئے کون سا دن ہوتا ہے کہ میرا تم سے چھٹکارا ہوتا ہے۔ میں جا کر صحن میں سے کتاب اٹھا لایا اور مولوی صاحب جیسے تھے ویسے کے ویسے ہو گئے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر اس دن تم چلے جاتے تو میرے گھر میں گھسنا نصیب نہ ہوتا۔ میں تمہارے شوق کو آزماتا تھا، مگر تم نے مجھے ہی آزما ڈالا۔ خدا ایسے شاگرد سب کو نصیب کرے۔ یہ بے حیائی نہیں، میاں یہ شوق ہے! علم کا جس کو چسکا ہوتا ہے وہ بری بھلی سب ہی کچھ سنتا ہے۔ بد شوق بھاگ نکلتے ہیں اور شوقین استاد کو دبا لیتے ہیں۔

پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ہم میں سے کسی نے کتاب میں سے ایک شعر پڑھا اور مولوی صاحب نے کتاب الٹ کر میز پر رکھ دی۔ پہلے دانی کی طرف متوجہ ہوئے اور صرف و نحو کے نکات پر بحث شروع ہوئی۔ اس بحث میں مجھے بارہ پتھر باہر سمجھ لیا جاتا تھا۔ کبھی میں نے دخل بھی دیا تو مولوی صاحب نے فرمایا، مہربانی کر کے اس بارے میں اپنے دماغ پر زور ڈالنے کی تکلیف گوارا نہ فرمائیے۔ اس کے بعد معنی بیان کئے، نکات بتائے اور پھر اسی مضمون کے شعر اور مقولوں کا سلسلہ چھڑا۔ اب میاں دانی خارج از بحث ہو گئے۔ اول تو مجھے یوں ہی ہزاروں شعر یاد تھے، دوسرے خاص طور پر تیار ہو کر جاتا تھا، مولوی صاحب اگر ایک شعر پڑھتے تو میں دو پڑھنے کو تیار ہو جاتا۔ جب فریقین اپنا ہندوستانی گولہ بارود ختم کر چکتے تو یورپ اور انگلستان کے شعرا اور فلسفیوں کے مقولوں کا نمبر آتا، اس میں دانی بھی شریک ہو جاتے۔ اگر کوئی قصہ طلب شعر ہوا، اور اسی قسم کا کوئی ماجرا مولوی صاحب پر گزرا تھا تو اس قصے کے ساتھ اپنا قصہ بھی ضرور بیان کر دیتے۔ غرض ایک شعر کی تصریح میں آدھ آدھ گھنٹا گزر جاتا مگر اس کے بعد جو وہ شعر ذہن نشین ہوتا تو اس کا محو ہونا مشکل تھا۔ چنانچہ اب تک مجھے اکثر شعر یاد ہیں۔

اگر کوئی رزمیہ قصیدہ ہوا تو اس سلسلے میں اکثر غدر کے حالات بیان کرتے اور جو کچھ شرفائے دہلی پر اس طوفان بے تمیزی میں گزری تھی اس کی داستان نہایت دردناک الفاظ میں سناتے۔ اکثر کہا کرتے، میاں! بچارا بہادر شاہ مجبور تھا۔ کسی اور پر بھی اگر یہی مصیبت نازل ہوتی تو وہ بھی اسی طرح ان بد معاش تلنگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا۔ یہ لوگ کوئی بادشاہ کو فائدہ پہنچانے تھوڑی آئے تھے۔ ان کا مقصد توشہر لوٹنا تھا وہ پورا ہوا اور انہوں نے دہلی کو کھک کر دیا۔ ایک روز میں دریبے میں جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک فون کی فوج تلنگوں کی آ رہی ہے۔ میں بھی دبک کر گلاب گندھی کی دکان کے سامنے کھڑاہو گیا۔ آگے آگے بینڈ والے تھے مگر وہ ایسا اندھا دھند ڈھول ٹھونک رہے تھے کہ خدا کی پناہ، پیچھے کوئی پچاس ساٹھ سوار تھے مگر ان کی عجیب کیفیت تھی۔

گھوڑے کیا تھے، دھوبی کے گدھے معلوم ہوتے تھے۔ بیچ میں سوار تھے مگر گٹھریوں کی کثرت سے جسم کا کچھ تھوڑا ہی حصہ دکھائی دیتا تھا۔ یہ گٹھریاں کیا تھیں۔ دہلی کی لوٹ۔ جس بھلے آدمی کو کھاتا پیتا دیکھا اس کے کپڑے تک اتروا لیے۔ جس روپے پیسے والے کو دیکھا اس کے گھر پر جا کر ڈھئی دے دی اور کہا، چل ہمارے ساتھ قلعے کو، تو انگریزوں سے ملا ہوا ہے۔ جب تک کچھ رکھوا نہ لیا، اس کا پنڈ نہ چھوڑا۔ اگر دہلی کےچاروں طرف انگریز فوج کا محاصرہ نہ ہوتا تو شریف لوگ کبھی کے دہلی سے نکل گئے ہوتے۔

غرض خدائی فوج داروں کا یہ لشکر غل مچاتا، دین دین کے نعرے مارتا میرے سامنے سے گزرا۔ اس جم غفیر کے بیچوں بیچ دولہا میاں تھے۔ یہ کون تھے عالی جناب بہادر خاں صاحب سپہ سالار۔ لباس سے بجائے سپہ سالار کے دولہا معلوم ہوئے تھے۔ جڑاؤ زیور میں لدے ہوئے تھے۔ پہنتے وقت شاید یہ بھی معلوم کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی گئی تھی کہ کون سا مردانہ زیور ہے اور کان سا زنانہ۔ صافے پر بجائے طرے کے، سرا سری لگائی تھی۔ جیسے خود زیور سے آراستہ تھے اسی طرح ان کا گھوڑا بھی زیور سے لدا ہوا تھا۔ ماش کے آٹے کی طرح اینٹھے جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا نعوذ باللہ خدا کی خدائی اب ان کے ہی ہاتھ میں آ گئی ہے۔

گلاب گندھی نے جوان لٹیروں کو آتے دیکھا، چپکے سے دکان بند کر دی اور اندر دروازوں سے بیٹھا جھانکتا رہا۔ خدا معلوم کیا تفاق ہوا کہ بہادر خاں کا گھوڑا عین اس کی دکان کے سامنے آکر رکا۔ بہادر خاں نے ادھر ادھر گردن پھیری، پوچھا، یہ کس کی دکان ہے؟ ان کے ایڈی کانگ نے عرض کی کہ گلاب گندھی کی۔ فرمایا۔ اس بد معاش کو خبر نہیں تھی کہ ما بدولت ادھر سے گزر رہے ہیں؟ دکان بند کر نے کے کیا معنی، ابھی کھلواؤ۔ خبر نہیں کہ اس حکم قضا شیم کا بچارے لالا جی پر اندر کیا اثر ہوا، ہم نے تو یہ دیکھا کہ ایک سپاہی نے تلوار کا دستہ کواڑ پر مار کر کہا دروازہ کھولو، اور جس طرح ’’سم سم کھل جا‘‘ کے الفاظ سے علی بابا کے قصے میں چوروں کے خزانے کا دروازہ کھلتا تھا اسی طرح اس حکم محکم سے گلاب گندھی کی دکان کھل گئی، بجنسہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تماشے کا پردہ اٹھ گیا۔

دروازے کے بیچوں بیچ لالا جی کانپتے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ کچھ بولنا چاہتے تھے مگر زبان یاری نہ دیتی تھی۔ اس وقت بہادر خاں کچھ خوش خوش تھے، شاید کسی موٹی اسامی کو مار کر آئے ہوں گے۔ کہنے لگے، تمہاری دکان سے بادشاہ کے ہاں عطر جاتا ہے؟ لالا جی نے بڑے زور سے گردن کو ٹوٹی ہوئی گڑیا کی طرح جھٹکا دیا۔ حکم ہوا کہ جو عطر بہتر سے بہتر ہو، وہ حاضر کرو۔ وہ لڑ کھڑاتے ہوئے اندر گئے اور دو کنٹر عطر سے بھرے ہوئے حاضر کئے۔ معلوم نہیں بیس روپے تولے کا عطر تھا یا تیس روپے تولے کا۔ بہادر خاں نے دونوں کنٹر لیے، کاگ نکالنے کی تکلیف کون گوارا کرتا۔ ایک کی گردن دوسرے سے ٹکرا دی، دونوں گردنیں کھٹ سے ٹوٹ گئیں۔ عطر سونگھا، کچھ پسند آیا، ایک کنٹر گھوڑےکی ایال پر الٹ دیا او ر دوسرا دم پر۔ کنٹر پھینک حکم دیا گیا۔۔۔ فارورڈ۔۔۔ اور اس طرح بچارے گلاب گندھی کا سیکڑوں روپے کا نقصان کر کے یہ ہندوستان کو آزادی دلانے والے چل دیے۔ ادھر اس خدائی فوج دار کا جانا ادھر ہم لونڈوں کا تالیاں بجانا، بچارے لالا جی نے کھسیانے ہو کر دکان بند کردی۔

بھئی غدر کے طوفان بے تمیزی میں نقصان تو جو ہونا تھا وہ ہوا، مگر کالج کی دور بین توڑ کر جو نقصان اس بے سری فوج نے ملک کو پہنچایا اس کی تلافی نا ممکن ہے۔ کالج میں پرنسپل صاحب کے کمرے کے اوپر ایک بڑی زبر دست دور بین نصب تھی۔ پرنسپل صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ دور بین کالج کے ایک بڑے دلدادہ انگریز نے کالج کی نذر کی ہے۔ اس کا سامنے کا شیشہ بڑی دقت سے تیار ہوا تھا۔ اس انگریز کے خاندان والوں نے برسوں میں اسے گھس کر پتلا اور اتنا پتلا کیا تھا کہ کاغذ سے بھی باریک ہو گیا تھا۔ غرض کہ یہ دوربین کالج کا سرمایہ ناز تھی۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوٹھے پر ایک بڑی توپ لگی ہوئی ہے۔ غدر کے زمانے میں کسی بد معاش کی اس پر بھی نظر پڑ گئی۔ اس نے جا کر فوج میں اڑا دیا کہ انگریزوں نے راتوں رات کشمیری دروازے سے آ کر کالج کے اوپر توپ لگا دی ہے اور اب تھوڑی دیر میں قلعہ اڑا دیں گے۔

یہ سننا تھا کہ ساری فوج کالج پر چڑھ آئی، سیڑھیاں لگا سیکڑوں سپاہی چھت پر پہنچ گئے۔ کندہ نا تراش نے بندوق کا کندا سامنے کے شیشے پر مارا۔ چھن سے شیشے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور ایک خاندان کی پچاس ساٹھ برس کی محنت خاک میں مل گئی۔ ان نابکاروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ دور بین کی دور بین اٹھا نیچے پھینک دی اور چند ہی منٹ کے اندر دین دین کے نعروں میں اس یادگار سلف کا ان نا خلفوں کے ہاتھوں خاتمہ بالخیر ہو گیا۔

غدر کے ہزاروں واقعات مولوی صاحب سے سنے ہیں لیکن اکثر تو ایسے ہیں کہ ان کا زمانہ موجودہ میں دہرانا خطرناک ہے۔ اور بعض ایسے ہیں کہ وہ پوری طرح یاد نہیں رہے۔ ہم بی اے میں پڑھتے تھے کہ کیمبرج سے غدر کے متعلق ایک جواب مضمون پر انعام مقرر ہوا۔ ا س مضمون کے لیے شرط یہ قائم کی گئی تھی کہ کوئی واقعہ تاریخی کتاب سے نہ لیا جائے، جو کچھ لکھا جائے شہر کے بڈھے بڑھیوں سے دریافت کر کے لکھا جائے۔ میں نے یہی مضمون لکھا تھا اور مجھ کو یہ انعام ملا۔ میں نے اس مضمون میں ایک باب مولوی صاحب کے بیان کردہ قصوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ میں کرید کرید کر مولوی صاحب سے اس مضمون کے لیے واقعا ت دریافت کیا کرتا اور وہ خوشی خوشی بتاتے۔ اب وہ مضمون دریا برد نہیں تو دریا پار ضرور ہو گیا۔ مسودہ نہ رکھا ا ور نہ رکھنے کی عادت ہے، اس لئے اب اس کا ذکر کرنا ہی فضول ہے۔

ہمارے پڑھنے کا طریقہ تو سن چکے، اب مولویوں کی جماعت کا حال سن لیجئے۔ اس جماعت میں تمام کے تمام سرحد پار ہی کے لوگ تھے۔ لمبے لمبے کرتے، بڑی بڑی آستینیں، ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو تھان کی شلواریں، ’’شملہ بہ مقدار علم‘‘ کے لحاظ سے کئی کئی سیر کے پگڑ، لمبی لمبی داڑھیاں، غرض معلوم ہوتا تھا کہ افغانستان کا کوئی قطعہ اٹھا کر بتاشوں کی گلی میں رکھ دیا ہے۔ محنت کی یہ حالت تھی کہ رات رات بھر کتاب دیکھتے۔ ٹھوٹھ ایسے کہ باوجود اس محنت کے کورے کے کورے رہتے۔

مولوی صاحب ہمیشہ ہم سے ان کی موٹی عقل کی تعریف کیا کرتے اور کہتے، بھئی، میں ان ملانوں سے عاجز آ گیا ہوں، اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور میرا بھی۔ جواب اس لئے نہیں دے دیتا کہ دل شکنی ہوگی، مگر کیا کروں، اللہ میاں نے ان کو ادب کے سمجھنے کا دماغ ہی نہیں دیا ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں، ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتا۔ بھلا ان کو حماسہ یا متنبی پڑھنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ فوج میں نوکر ہو جائیں، محنت مزدوری کریں یا ہینگ کا تو بڑا گلے میں ڈال کر بیچتے پھریں۔ ہم کہتے، مولوی صاحب! آپ بھی غضب کرتے ہیں۔ رگڑ سے پتھر بھی گھس جاتا ہے۔ آخر متنبی نے ایسے کون سے شعر کہے ہیں جو غور کرنے سے سمجھ میں نہ آئیں۔

ایک روز فرمانے لگے، لو، آج تم ٹھہر جاؤ اور ان مولویوں کا رنگ بھی دیکھ لو، مگر دیکھو، کہیں ہنس نہ دینا، ورنہ چھرا ہی بھونک دیں گے۔ اس روز ہم کو بھی چھٹی تھی۔ ہم پڑھ کر فارغ ہو ئے تھے کہ یہ جماعت آ گئی۔ یہ لوگ مولوی صاحب کو گھیر کر بیٹھ گئے اور ہم اٹھ کر ایک کونے میں جا بیٹھے۔ اس روز مقامات حریری کا سبق تھا۔ کتابیں کھولی گئی اور ایک صاحب نےبڑی گرجتی ہوئی آواز میں اعوذ باللہ سے سبق شروع کیا۔ زید بن حارث کے سفر کا حال تھا اور رات کے وقت سفر کرنے کو فی آناء اللیل سے ادا کیا تھا۔ ان بھلے آدمیوں نے قاموس دیکھ کر مطالعہ کیا تھا۔ اس میں شامت اعمال سے ’’اناء‘‘ کے معنی مٹکے کے بھی ہیں۔ اللہ دے اور بندہ لے، انہوں نے یہاں مٹکا پھنسا دیا اور نہایت متانت سے ’فی آناء اللیل‘ کے معنی’’رات کے مٹکے میں سفر کیا‘‘ سے کر دیے۔

مولوی صاحب نے فرمایا، ’’اناء‘‘ کے دوسرے معنی بھی توہیں۔ پڑھنے والے صاحب نے کہا، جی ہاں کئی معنی ہیں، لیکن اس مقام پر’ مٹکا‘ہی زیاہ چسپاں ہوتا ہے۔ ہم کو ہنسی آئی، مولوی صاحب نے مسکرا کر، ان لوگوں نے نہایت برے برے دیدوں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے سوچا، بھائی یہاں ہمارا ٹھکانا نہیں، یہاں سے کھسک جانا ہی مناسب ہے، کہیں کوئی اٹھ کر گلا نہ گھونٹ دے۔ ہم نے اجازت چاہی۔ مولوی صاحب کہتے ہی رہے کہ بیٹھو، ذرا اور کچھ سن جاؤ، ہم نے کہا، مولوی صاحب! ہم کو کام ہے، کسی اور دن دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ جوتیاں پہن سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ کوٹھے سے اتر جو ہنسنا شروع کیا تو گھر پہنچتے پہنچتے بڑی مشکل سے ہنسی رکی۔ اب جب کبھی خیال آتا ہے تو اس جماعت کا نقشہ آنکھوں کے نیچے پھر جاتا ہے۔ اور رات کے مٹکے میں سفر کرنے کا فقرہ ہنساتا نہیں مسکراہٹ ضرور پیدا کردیتا ہے۔

مولوی صاحب کو اپنے ترجمے پر ناز تھا اور اکثر اس کا ذکر فخریہ لہجے میں کیا کرتے تھے۔ اردو ادب میں ان کی جن تصنیفات نے دھوم مچا دی ہے وہ ان کے نزدیک بہت معمولی چیزیں تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے میری تمام عمر کا اصلی سرمایہ کلام مجید کا ترجمہ ہے۔ اس میں مجھے جتنی محنت اٹھانی پڑی ہے اس کا اندازہ کچھ میں ہی کر سکتا ہوں۔ ایک ایک لفظ کے ترجمے میں میرا سارا سارا دن صرف ہو گیا ہے۔ میاں! سچ کہنا کیسا محاورے کی جگہ محاورہ بٹھایا ہے۔ ہم نے کہا، مولوی صاحب! بٹھایا نہیں ٹھونسا ہے۔ جہاں یہ فقرہ کہا اور مولوی صاحب اچھل پڑے۔ بڑے خفا ہوتے اور کہتے۔ کل کے لونڈو! میرے محاوروں کو غلط بتاتے ہو! میاں میری اردو کا سکہ تمام ہندوستان پر بیٹھا ہوا ہے خود لکھو گے تو چیں بول جاؤ گے۔

محاوروں کی بھرمار کے متعلق اکثر مجھ سے ان کا جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ کہا کرتا تھا، مولوی صاحب! آپ نے محاوروں کی کوئی فہرست تیار کر لی ہے اور کسی نہ کسی محاورے کو آپ کسی نہ کسی جگہ پھنسا دینا چاہتے ہیں، خواہ اس کی گنجائش وہاں ہو یا نہ ہو۔ جناب والا! اہل زبان کو یہ دکھانے کی ضرورت نہیں کہ وہ محاوروں پر حاوی ہے۔ یہ صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم باہر والے نہیں، دہلی والے ہیں۔ تھوڑی دیر تو حجت کرتے، اس کے بعد کہتے، اچھا بھئی! تم ہی دہلی والے سہی۔ ہم تو اسی طرح لکھیں گے جس طرح اب تک لکھا ہے۔ تم ہم کو دہلی والوں کی فہرست سے نکال دو، مگر میاں! اپنا ہی نقصان کرو گے۔

مجھ کو مولوی صاحب کے طرز تحریر پر کوئی رائے ظاہر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اول تو میرے لئے ابتدا ہی میں ’’خطائے بزرگاں گرفتن، خطا است‘‘ کی سب سے بڑی ٹھوکر ہے۔ دوسرے میری قابلیت محدود کی سرحد سے گزر کر مفقود کی سرحد میں آ گئی ہے، لیکن باوجود موانعات کے، میں نے مولوی صاحب کے سامنے یہی کہا، اب بھی کہتا ہوں اور ہمیشہ کہوں گا کہ محاوروں کے استعمال کا شوق مولوی صاحب کو حد سے زیادہ تھا۔ تحریر میں ہویا تقریر میں وہ محاوروں کی ٹھونسم ٹھانس سے عبارت کو بے لطف کر دیتے تھے، اور بعض وقت ایسے محاورے کا استعمال کر جاتے تھے جو بے موقع ہی نہیں اکثر غلط ہوتے تھے۔

خدا معلوم انہوں نےمحاوروں کی کوئی فرہنگ تیار کر رکھی تھی یا کیا! ایسے ایسے محاورے ان کی زبان اور قلم سے نکل جاتے تھے جو نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ ان کی عبارت کی روانی اور بے ساختگی کا جواب دوسری جگہ ملنا مشکل ہے، مگر چلتے چلتے راستے میں عربی الفاظ کے روڑے ہی نہیں بچھاتے تھے بلکہ پہاڑ رکھ دیتے تھے۔ غرض یہ تھی کہ لوگ یہ جان لیں کہ میں دہلی والا ہی نہیں ہوں مولوی بھی ہوں۔ بہر حال ان کی تحریر کا ایک خاص رنگ ہے اور اس کی نقل اتارنا مشکل اور بہت مشکل ہے۔

ترجمہ کرنے کا انہیں خاص ملکہ تھا، وجہ یہ تھی کہ کئی زبانوں پر حاوی تھے۔ اگرایک زبان کے لفظ سے مطلب ادا نہ ہوا تو دوسری زبان کا لفظ وہاں رکھ دیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ 1903 کے دربار تاج پوشی پر جو انگریزی کتاب لکھی گئی تھی اس کا ترجمہ مولوی صاحب کے سپرد ہوا۔ ایک روز جو ہم پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ خوبصور ت سی جلد کی ایک بڑی موٹی کتاب مولوی صاحب کی میز پر رکھی ہے۔ ہم نے اجازت لے کر کتاب اٹھائی اور اول سے آخر ساری تصویریں دیکھ ڈالیں۔ اول تو مولوی صاحب بیٹھے دیکھتے رہے، پھر کہنے لگے، بیٹا! یوں سر سری نظر سے کیا دیکھتے ہو، گھر لے جاؤ اچھی طرح پڑھو، مگر دیکھو خراب نہ کرنا۔ ہم دونوں نے دل میں سوچا کہ خدا معلوم کیا بھید ہے جو مولوی صاحب بغیر مانگے اپنی کتاب دے رہے ہیں۔

خوش خوش کتاب بغل میں مار گھر آئے۔ دو ایک روز میں پڑھ ڈالی، ایک آدھ تصویر بھی غائب کر دی۔ چوتھے روز کتاب لے جا مولوی صاحب کے حوالے کی۔ پوچھا، کہو پسند آئی؟ ہم نے کہا، مولوی صاحب! خوب کتاب ہے۔ کہنے لگے۔ اچھی کتاب ہے تو ترجمہ کر ڈالو، ہم نے کورا جواب دے دیا۔ کہا، دیکھو، سنو اس کتاب کا ترجمہ مجھے کرنا ہے، تم سے ترجمہ کراؤں گا، صحیح میں کر دوں گا۔ اب مجھ میں اتنا دم نہیں کہ اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کر سکوں۔ اگر اب کے انکار کیا تو کل سے گھر میں گھسنے نہ دوں گا۔ یہ کہتے کہتے کتاب کی جلد توڑ، دس صفحے میرے اور دس میاں دانی کےحوالے کر دیے۔ ساتھ ہی میاں رحیم بخش کو آواز دی۔ وہ آئے، ان کو حکم دیا کہ ایک ایک دستہ بادامی کاغذ کا ان دونوں کو دے دو۔ ’’قہر درویش بر جان دروش‘‘ کی صورت تھی۔ جس طرح پہلے خوشی خوشی پوری کتاب لے گئے تھے اسی طرح منہ بنائے ہوئے ان پلندوں کو بغل میں مارا۔

گھر آکر بے کار کے کام کی طرح ترجمہ کیا۔ دوسرے روز جا کر پڑھنے کے لیے کتاب اٹھائی، پوچھا، ترجمہ لائے؟ ہم نے دبی ہوئی آواز میں کہا، لائے۔ کہا، پہلے وہ پڑھو۔ ہم پڑھتے جاتے اور مولوی صاحب اصل کتاب دیکھ کر اس کی درستی کرتے جاتے۔ اب اگر میں یا دانی کہیں کہ یہ ترجمہ ہمارا ہے تو یقین مانئے کہ دونوں جھوٹے ہیں۔

مولوی صاحب کی اصلاح نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور ہم نے سمجھ لیا کہ اس علم میں بھی مولوی صاحب سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سے ہماری مولوی صاحب سے بڑی جنگ ہوئی، کیونکہ بندہ خدا نے ہم دونوں غریبوں کا اس میں ذرا بھی ذکر نہیں کیا مگر کچھ پروا نہیں۔ اس کا بدلا ہم اب لیے لیتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کہے دیتے ہیں کہ اس کتاب میں تھوڑے بہت لفظ ہم دونوں کے بھی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اگر اصلاح شدہ مسودوں کو دیکھا جائے تو کاٹ چھانٹ کی وجہ سے ہمارے لفظوں کا تلاش کرنا سر میں لیکھیں دیکھنے سے کم مشکل نہ ہوگا۔

ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مولوی صاحب چونکہ کئی زبانوں پر حاوی تھے اس لیے ان کو کہیں نہ کہیں سے مناسب لفظ ادائے مطلب کے لیےضرور مل جاتا تھا۔ مثلاً اسی جشن تاج پوشی کی کتاب میں ایک جگہ لفظ Stallion آیا۔ ڈکشنری میں جو دیکھا تو اس کے معنی ’’سیاہ بڑا جنگی گھوڑا‘‘ نکلے، یاروں نے ترجمے میں وہی لفظ ٹھونک دیے۔ جب مولوی صاحب نے یہ الفاظ سنے تو بہت ہنسے، کہنے لگے، واہ بیٹا واہ! کیوں نہ ہو دہلی والے ہو، خالص اردو لکھی ہے، بندہ خدا ’’شبدیز‘‘ لکھ دو، چلو چھٹی ہوئی۔ اب کوئی صاحب اس سے بہتر لفظ بتا دیں تو میں جانوں۔ ان کے ترجمے میں خوبی یہ ہوتی تھی کہ لفظ کی جگہ لفظ بٹھاتے تھے لیکن وہ لفظ ایسا ہوتا تھا کہ وہاں نگینہ بن جاتا تھا۔

’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ اٹھا کر دیکھو، وہی لفظ پر لفظ ہے معنی بھی پورے دیتا ہےاور اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا۔ سیکڑوں کتابوں کے ترجمے ہوئے۔ دوسری اشاعت میں کچھ اور تیسری میں کچھ کے کچھ ہو گئے۔ لیکن ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ جوں کا توں ہے۔ ایک لفظ ادھر سے ادھر نہیں ہوا۔

کہا کرتے تھے کہ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ بھی میرا ایک کارنامہ ہے۔ اس کتاب کے ترجمے کا کام تین آدمیوں کے سپرد ہوا تھا، ان میں ایک مولوی عظمت اللہ صاحب تھے۔ اس کی اصلاح ڈائرکٹر صاحب کے ذمے تھی اور ہم ڈائرکٹر صاحب کے رشتے دار تھے۔ روزانہ ایک دو دفعات کا ترجمہ آتا، ہم ڈائرکٹر صاحب کو سناتے۔ وہ بڑا غل مچاتے کہ یہ لفظ خلاف محاورہ ہے، اس لفظ سے مفہوم ادا نہیں ہوتا یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا گیا ہے۔ غرض دو تین دفعات کہیں تین چار گھنٹے میں پاس ہوتیں۔ مجھے بڑا تاؤ آتا تھا کہ ترجمہ کرے کوئی، یہ باتیں سنے کوئی مگر بھئی یہ ضرور کہوں گا کہ وہ بھلا آدمی جو بات کہتا تھا، باون تولے پاو رتی کی کہتا تھا۔ جو اعتراض کرتا تھا وہ اٹھائے نہ اٹھتا تھا۔ میاں! پرانے زمانے کے انگریز غضب کی اردو سمجھتے تھے۔ گو اچھی اردو لکھ نہ سکیں مگر ترجمے کی وہ وہ غلطیاں نکالتے تھے کہ تم جیسے دہلی والوں کے کان پکڑوا دیں۔

میں بھی ترجمہ دیکھتا تو واقعی کچھ اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے دل میں کہا نذیر احمد! تو بھی خم ٹھونک کر میدان میں کیوں نہیں آ جاتا۔ اردو جانتا ہے، فارسی جانتا ہے، عربی جانتا ہے کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بھی سمجھتا ہے۔ ان لوگوں سے اچھا نہیں تو کم سے کم ایسا ترجمہ تو تو بھی کر لے گا۔ یہ سوچ، سوا روپے کی رائل ڈکشنری بازار سے خرید لایا، رات کو لمپ جلا کر کپڑے اتار، لنگوٹ باندھ، ترجمے پر پل پڑا۔ جن دفعات کا ترجمہ دوسرے روز پیش ہونے والا تھا ان کا خود ترجمہ کر ڈالا۔ دوسرے دن ترجمہ جیب میں ڈال، دفتر پہنچا۔ ڈائرکٹر صاحب آئے، مجھے بلایا اور ان لوگوں کے ترجمے کو سن کر وہی گڑ بڑ شروع کی۔ خدا خدا کر کے یہ مشکل آسان ہوئی۔ میں نے کہا کہ کم ترین بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔

کہا، اچھا کہو۔ میں نے جیب میں سے کاغذ نکالا۔ وہ سمجھے عرضی ہے، لینے کو ہاتھ بڑھایا۔ میں نے کہا، عرضی نہیں، آج کی دفعات کا ترجمہ میں نے کیا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب یہ سن کر اچھل پڑے، کہنے لگے، تم نے! تم نے ترجمہ کیا ہے! تم کو تو انگریزی نہیں آتی، پھر ترجمہ کیسے کیا؟ میں نے کہا رائل ڈکشنری سے۔ انہوں نے ہنس کر کہا، ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ رائل ڈکشنری سے نہیں ہوا کرتا۔ میں نے کہا، سن تو لیجئے۔ کہا، اچھا سناؤ۔ میں نے جو پڑھا تو صاحب بہادر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کہنے لگے، یہ ترجمہ تم نے رائل ڈکشنری سے کیا ہے؟ میں نے کہا، ہاں۔ کہنے لگے، کل شروع کی چار دفعات کا ترجمہ کر کے لاؤ۔ میں دوسرے دن لے کر گیا۔ بہت پسند کیا ور کہا تم نے پہلے ہی کیوں نہ کہا کہ میں ترجمہ کر سکتا ہوں، جو میرا اتنا وقت ضائع کرایا۔ جاؤ تم بھی ان ترجمہ کرنے والوں میں شریک ہوجاؤ۔ اس دن سے ہم بھی پانچوں سواروں میں مل گئے اور یہی ہماری ترقی کا زینہ تھا۔

اب رہے ہماری تصنیفات پر انعام، وہ تو اللہ میاں نے چھپر پھاڑ کر دیے ہیں۔ اگر کوئی کہتا بھی کہ ’’مرآۃ العروس‘‘ پر تم کو انعام ملے گا تو میں اس کو دیوانہ سمجھتا۔ اصل یہ ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنی لڑکی کے لئے لکھی تھی وہی پڑھا کرتی تھی۔ میاں بشیر کو ’’چند پند‘‘ لکھ کر دی تھی۔ میں اس زمانے میں تعلیمات کا انسپکٹر تھا۔ دورے پر نکلے تھے، بال بچے ساتھ تھے۔ ایک جگہ ٹھہرے تھے۔ مستر کیمپ سن ڈائرکٹر تعلیمات کا ڈیرا بھی قریب میں آ لگا۔ شام کا وقت تھا، میاں بشیر اپنی ٹٹوانی پر سوار ہو کر ہوا خوری کو نکلے۔ ادھر سے ڈائرکٹر صاحب آ رہے تھے۔ میاں بشیر نے جھک کر سلام کیا۔

صاحب ٹھہر گئے، پوچھا، میاں تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے نام بتایا۔ پھر پوچھا، تمہارے والد کون ہیں؟ میرا نام بتایا۔ پھر پوچھا، کہو میاں کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا، ’’چند پند۔‘‘ ڈائرکٹر صاحب سمجھے تھے کہ اردو کی پہلی یا دوسری کہے گا۔ ’’چند پند‘‘ کا نام سن کر پریشان ہوئے، کیونکہ اس عجیب و غریب نام سے ان کے کان نا آشنا تھے، کہا، ہمیں اپنی کتاب دکھاؤ گے؟ بشیر نے کہا، جی ہاں، ابھی لاتا ہوں۔ ہماری آپا کی بھی کتاب دیکھئے گا۔ انہوں نے کہا، اس کتاب کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا، ’’مرآۃ العروس۔‘‘ یہ دوسرا نیا نام تھا۔ صاحب نے کہا، ہاں وہ بھی لاؤ۔

میاں بشیر ٹٹوانی سے کود بھاگتے ہوئے ڈیرے میں آئے، اپنا جزدان کھول ’’چند پند‘‘ نکالی۔ اس کے بعد اپنی بہن کے جزدان پر قبضہ کیا۔ اس نے جودیکھا کہ بشیر جزدان ٹٹول رہا ہے، تو دوڑی ہوئی گئی۔ اتنے میں بشیر ’’مرآۃ العروس‘‘ لےکر بھاگا، یہ اس کے پیچھے بھاگی۔ دونوں میں بڑی دھینگا مشتی ہوئی، خوب رونا پیٹنا ہوا۔ بشیر بہن کو دھکا دے، کتاب لے، یہ جا وہ جا۔ بہن صاحبہ نے دل کا بخار آنسو بہا کر نکالا۔ میاں بشیر نے دونوں کتابیں لے جا صاحب کے حوالے کیں۔ انہوں نے الٹ پلٹ کر کچھ پڑھا اور بشیر سے کہا، ہم یہ کتابیں لے جائیں؟ کل بھجوا دیں گے۔ انہوں نے کہا، لے جائیے کل ہم کو چھٹی رہے گی۔

میں جو ڈیرے میں آیا تو کیا دیکھا ہوں کہ قیامت مچ رہی ہے۔ لڑکی نے رو رو کر آنکھیں لال کر لی ہیں، میاں بشیر ڈرے سہمے ڈیرے کے ایک کونے میں دبکے بیٹھے ہیں۔ میرا اندر قدم رکھنا تھا کہ فریاد کی صدا بلند ہوئی۔ صاحب زادی نے رو رو کر اس طرح واقعہ بیان کیا جس طرح کسی عزیز کے مرنے کا کوئی بین کرتا ہے۔ میں نے بشیر کو بلایا۔ وہ ڈرے کہ کہیں ٹھکائی نہ ہو جائے، پہلے ہی بسورنا شروع کیا۔ وہ دبے جاتے تھے اور بہن شیر ہوئی جاتی تھی۔ آخر بڑی مشکل سے اتنا معلوم ہوا کہ ایک انگریز دونوں کتابیں لے کر چلا گیا۔ میں نے جا کر سائیس سے پوچھا کہ وہ انگریز کون تھا؟ تو معلوم ہوا کہ سامنے جو ڈیرے پڑے ہیں، ان میں وہ اترے ہیں۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا ڈائرکٹر صاحب کو بچوں کی کتابوں سے کیا کام! خیر لڑکی کو دلاسا دیا کہ میں لا دوں گا، نہیں تو دوسری لکھ دوں گا، اس نے کہا میں لوں گی تو وہی کتاب لوں گی۔ بڑی مشکل سے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔

اب فکر ہوا کہ صاحب سے پوچھوں تو کیونکر پوچھوں! سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کہ صاحب کا مطلب اس طرح بچوں کی کتابیں منگانے سے کیا ہو سکتا ہے! غرض اسی شش و پنج میں صبح ہو گئی۔ کوئی سات بجے ہوں گے کی صاحب کا چپراسی آیا اور کہا کہ صاحب سلام بولتے ہیں۔

وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب بیٹھے’مرآۃ العروس‘ پڑھ رہے ہیں۔ سلام کر کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ صاحب نے کہا، مولوی صاحب! آپ نے ایسی مفید اور دلچسپ کتابیں لکھیں اور طبع نہ کرائیں! اگر کل آپ کا لڑکا مجھ کو نہ ملتا تو شاید کوئی بھی ان کتابوں کو نہ دیکھتا اور چند ہی روز میں بچوں کے ہاتھوں یہ کتابیں پھٹ پھٹا کر برابر ہو جاتیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ’’مرآۃ العروس‘‘ کو سرکار میں پیش کر دوں۔ آج کل گورنمنٹ ایسی کتابوں کی تلاش میں ہے جو لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں داخل ہو سکیں۔ میں نے کہا، آپ کو اختیار ہے یہ کہہ کر میں چلا آیا۔

صاحب نے وہ کتاب گورنمنٹ میں پیش کردی۔ وہاں سے انعام ملا، یہاں شیر کے منہ کو خون لگ گیا، اوپر تلے کئی کتابیں گھسیٹ ڈالیں۔ جو کتاب لکھی، اس پر انعام ملا۔ جو لکھا گیا پسند کیا گیا۔ غرض ہم مصنف بھی بن گئے اور ساتھ ہی ڈپٹی کلکٹر بھی ہو گئے مگر بھئی بات یہ ہے کہ انسان کا جتنا عہدہ بڑھتا جاتا ہے اسی طرح اس کی فرصت کا وقت بھی گھٹتا جاتا ہے۔ یہی مصیبت ہم پر پڑی۔ ادھر کام کی زیادتی، ادھر سر سید کی فرمائشوں کی بھر مار، آج یہاں لکچر دیا، کل وہاں دیا، تصنیف کا سلسلہ ہی ٹوٹ گیا۔

خدا خدا کر کے بڑھاپے میں فرصت ملی تو قرآن شریف حفظ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ شوق ہوا کہ اس کا ترجمہ بھی کر ڈالو، لوگوں کو بھی مفید ہوگا اور شاید تمہاری نجات کا بھی ذریعہ ہو جائے گا۔ غرض جتنی محنت ممکن تھی، اتنی محنت کی۔ اسی ترجمے کے سلسلے میں ’الحقوق و الفرائض‘ کا مواد بھی جمع کر لیا۔ کلام مجید کی دعاؤں کو بھی ایک جگہ اکٹھا کر لیا۔ غرض ایک پنتھ اور کئی کاج ہو گئے۔ مگر بھئی سچ کہنا کہ کیسا ترجمہ کیا ہے؟ میں خاموش رہا، مگر دانی نے کہا کہ مولوی صاحب! ہم کو اس ترجمے کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مولوی صاحب نے کہا، ہیں میاں دانی! یہ کیا کہا؟ تم نے ابھی تک میرا ترجمہ نہیں دیکھا؟ بھئی غضب کیا۔ ارے میاں رحیم بخش! ذرا ادھر تو آنا، وہ جو سنہری جلد کی حمائل شریف ہے وہ میاں دانی کو دے دو۔ بیٹا! ذرا اس کو غور سے پڑھو، دیکھو تو میں نے اس بڑھاپے میں کیا محنت کی ہے۔ غرض حمائل شریف میاں دانی کے قبضے میں آ گئی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ آپ کی یاد گار رہے گی۔ جب ہم اٹھ کر چلنے لگے تو مولوی صاحب نے دانی سے کہا، ارے بھئی۔ ایک بات تو کہنی بھول گیا، اس حمائل شریف کا ہدیہ ساڑھے پانچ روپے ہے، کل ضرور لیتے آنا۔ بچارے کا شکریہ اکارت گیا اور دوسرے روز پورے ساڑھے پانچ روپے مولوی صاحب نے دھرا لیے۔

مولوی صاحب نے اس عاجز پر بھی رقمی حملے کیے لیکن یہ ذرا ٹیڑھا مقابلہ تھا۔ ایک چھوڑ کئی کتابیں مولوی صاحب سے اینٹھیں، کبھی ایک پیسا نہ دیا۔ یہ نہیں کہ خدا نخواستہ وعدہ کرتا اور رقم نہ دیتا، میں اس وقت تک کتاب لیتا ہی نہ تھا جب تک مولوی صاحب خود نہ فرما دیتے کہ اچھا بھئی تو یوں ہی لے جا مگر میرا پیچھا چھوڑ۔ میری ترکیب یہ تھی کہ پہلے کتاب پر قبضہ کرتا، مولوی صاحب قیمت مانگتے، میں حجت کرتا، وہ جواب دیتے، میں اس کاجواب دیتا، غرض بہت کچھ جھک جھک کے بعد تھک کر کہتے کہ جاؤ میں نے قیمت معاف کی، آئندہ میری کسی کتاب کو ہاتھ لگایا تو اچھا نہیں ہوگا، مگر خدا غریق رحمت کرے! ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب مجھ کو دے دیتے تھے اور جان جان کر جھگڑتے تھے۔ ریویو کے لیے جو کتابیں آتیں، وہ تو ہمارے باپ دادا کا مال تھیں۔ وہ پورا ریویو لکھنے بھی نہ پاتے کہ کتاب کے صفحہ اول پر میرا نام درج ہو کر شہادت دستاویزی اور ثبوت قبضہ کی شکل اختیار کر لیتا۔ اس وقت بھی میرے پاس اس زمانے کی بعض کتابیں موجود ہیں۔ معلوم نہیں کہ میاں دانی کو جو حمائل شریف عطا ہوئی تھی وہ ان کے پاس رہی یا نہیں۔

کتابیں تو کتابیں، میں نے مولوی صاحب کی ایل ایل ڈی کی گون پر قبضہ کرنے کا فکر کیا تھا۔ ہوا یہ کہ جب میں اور دانی بی اے میں پاس ہوئے تو جلسہ تقسیم اسناد کے لیے لاہور جانا پڑا۔ گون بنوانا بے ضرورت سمجھا گیا۔ اب خیال ہوا کہ گون کس کی چھینیں۔ دانی کو تو گون مل گئی۔ میں نے مولوی صاحب کی گون تاکی۔ ہم دونوں مل کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا۔ کہنے لگے، بیٹا! میری گون بڑی قیمتی ہے۔ ساڑھے چھ سو روپے میں دو گونیں پڑی ہیں۔ بھلا میں کیا خریدتا، یہ میاں مشرف نے میری سرمنڈھ دیں۔ و ہ ایڈمبرا میں پڑھتے تھے، مجھے لکھا کہ اپنی تمام تصنیفات و تالیفات کی نہایت عمدہ جلدیں بندھوا کر بھجوا دیجئے، سر ولیم میور دیکھنا چاہتے ہیں۔

سر ولیم میور پہلے ممالک مغربی و شمالی کے لیفٹیننٹ گورنر تھے، مجھ پر بھی بہت مہربان تھے۔ میں نے مشرف کے لکھے کو سچ جانا، کتابوں کی جلدیں بندھوا ایڈمبرا روانہ کر دیں۔ ان کتابوں میں میرا کلام مجید کا ترجمہ بھی تھا۔ وہ بہت پسند کیا گیا۔ سر ولیم میور نے یہ کتابیں ایڈمبرا یونیورسٹی میں پیش کر دیں اور ہمیں گھر بیٹھے ایل ایل ڈی کی ڈگری مل گئی۔ مگر اس ڈگری کی اطلاع میرے پاس بعد میں آئی پہلے ایک درزی کا خط اور بل آیا کہ مسٹر مشرف کی فرمائش کے بہ موجب ایل ایل ڈی کی ایک سیاہ اور ایک سرخ گون مع ٹوپی کے روانہ کی گئی ہے، براہ کرم جس قدر جلد ممکن ہو ساڑھے چھ سو روپے روانہ فرمائیے۔

میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ الہی یہ کیا مراجرا ہے! یا تو مشرف دیوانہ ہوگیا ہے یا یہ درزی پاگل ہے کہ بیٹھے بٹھائے بل روانہ کر رہا ہے۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گون کا پلندا بھی آ گیا۔ غرض اسی شش و پنج میں ایک ہفتہ گزر گیا۔ دوسری ڈاک سے ایل ایل ڈی کی ڈگری ملنے کا مراسلہ اور میاں مشرف کا خط ملا۔ قہر درویش پر جان درویش، درزی صاحب کو رقم روانہ کی، مشرف کو برا بھلا کہا کہ وہاں سے یہ تھیلے بنوا کر بھجوانے کی کیا ضرورت تھی، میں یہاں اپنے ناپ کی گون بنوا لیتا۔ بہر حال یہ گونیں ساڑھے چھ سو روپے کی ہیں، معاف کیجئے میں نہیں دے سکتا۔ جا کسی پروفیسر کی گون چھین کر کیوں نہیں لے جاتا جو میرے پیچھے پڑا ہے۔

میں یہ قصہ بیٹھا سنتا رہا۔ اس کے بعد بغیر کچھ کہے سنے اٹھا اور مولوی صاحب کے سامان کی کوٹھری کا رخ کیا۔ وہ ’’ہاں ہاں ہاں‘‘ کہتے رہی رہے، میں نے کنڈی کھول، اندر گھس، الماری سے کالی گون نکال ہی لی۔ جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ پانی سر سے گزرگیا تو سنبھل سنبھل کر اٹھے۔ میں اتنی دیر میں دروازہ بند کر، گون بغل میں مار، پھر اپنی جگہ پر آ گیا۔ مولوی صاحب بھی بیٹھ گئے اور اب انہوں گون کی قیمت، میری لا پروائی، ریل میں چوری کے خطرات، بی اے اور ایل ایل ڈی کی گون کے اختلاف، غرض اسی طرح کی بیسیوں چیزوں پر لیکچر دے ڈالے، میں بیٹھا سنتا رہا۔

جب وہ کہتے کہتے تھک گئے تو میں نے لکچر دینا شروع کیا۔ استادوں کی محبت، اپنی غربت، گون کی صرف ایک روز کی ضرورت، وقت کی قلت، غرض دس بارہ پہلوؤں پر میں نے بھی اسپیچ دے دی اور آخر میں صاف صاف کہہ دیا کہ یہ گون میں لے کر جاؤں گا اور ضرور لے کر جاؤں گا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کچھ نرم پڑے، کہنے لگے، واپس کب کروگے؟ میں نے کہا، آپ سرخ گون پہنتے ہیں، کالی گون مجھے دے دیجئے۔ آپ کا کچھ نقصان نہ ہوگا اور ایک غریب کا فائدہ ہو جائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا، نہیں بیٹا! لاہور سے آ کر دے دیجیو، مجھے در بار وغیرہ میں یہ گون پہننی پڑتی ہے۔ یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے لہجے میں کہے کہ مجھے بھی وعدہ کرتے ہی بن پڑی۔

آخر میں گون لے کر گیا اور لاہور سے آکر واپس کر دی۔ جب مولوی صاحب نے گون پر قبضہ کر لیا، اس وقت بہت خفا ہوئے، کہنے لگے، اب کے تو اگر میری کوٹھری میں گھسا تو اچھا ہی نہ ہوگا۔ کل کو میرا کیش بکس اٹھا کرلے جائے گا۔ خیر دانی گون لے جاتا تو کچھ ہرج نہ تھا کیوں کہ واپسی کی تو امید رہتی۔ مجھے کب امید تھی کہ آپ بزرگ واپس بھی کر دیں گے۔ وہ تو کہو میرا حلال کا مال تھا جو واپس آ گیا۔ میں نے کہا، مولوی صاحب! اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ آپ کو گون کی واپسی کی توقع نہیں ہے تو آپ اس کی تمام عمر شکل بھی نہ دیکھتے۔ ہنس کر کہنے لگے، چلو ’’مشتے بعد از جنگ‘‘ کی صورت ہے۔ آئندہ میں دینے میں احتیاط کروں گا اور تم واپسی میں احتیاط کرنا۔

اس وقت تو یہ باتیں ہنسی میں ہوئیں، مگر اب افسوس ہوتا ہے۔ گون اگر میرے پاس رہ جاتی تو، مولوی صاحب کی یاد گار ہوتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ گون میرے پاس بھیج دے کیونکہ اس میں میرا بھی حق ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ گون مولوی صاحب نے مجھ کو دی تو نہ تھی لیکن وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ میرے ہاتھ سے گئی۔ میری غلطی تھی کہ جو اس کو لے جا کر واپس کیا۔ اگر مل گئی توکبھی ایسی غلطی نہ کروں گا۔

جس طرح مسٹر مشرف نے یہ گونیں مولوی صاحب کے گلے منڈھی تھیں، اسی طرح نواب محسن الملک نے حیدر آباد میں فرنیچر ان کے سر چیپک دیا تھا۔ اس زمانے میں حیدر آباد میں نواب محسن الملک کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی تجویز اور سر سید کی تحریک پر مولوی صاحب حیدر آباد آئے۔ پہلے نواب محسن الملک ہی کے ہاں قیام کیا۔ اس کے بعد علاحدہ کوٹھی میں جا رہے۔ ہندوستانی وضع کا سامان، تخت، چوکیاں وغیرہ خرید لیں۔ بھلا محسن الملک یہ کیوں کر دیکھ سکتے تھے کہ ان کا دوست پرانی وضع کے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرے، ایک روز سکندر آباد جا، ایلن اینڈ کمپنی کوکئی ہزار کے فرنیچر کا آر ڈر دے دیا اور کہہ دیا کہ مولوی صاحب کے ہاں پہنچا دو اور بل بنا کر بھیج دو۔

ایک روز جو مولوی صاحب اٹھتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ چھکڑے پر چھکڑا فرنیچر کا لدا کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔ بہت چکرائے، لینے سے انکار کیا مگر وہ نواب محسن الملک کا پڑھایا ہوا شیطان تھا۔ وہ کب ماننے والا تھا۔ آخر لاچار گھر چھوڑ باہر آ بیٹھے اور دن بھر میں مولوی صاحب کا مکان صاحب بہادر کی کوٹھی ہو گیا۔ مگر یہ بھی نذیر احمد تھے کچھ ایسی چال چلے کہ جب ان کا تقرر پٹنچرو کی صدر تعلقے داری پر ہوا تو وہ سب کا سب سامان بہت تھوڑی کمی پر ایلن ہی کے سر مارا اور پٹنچرو، وہی اپنے پرانے تخت وغیرہ لے گئے۔ نواب محسن الملک کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔

اب آگے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ نوام محسن الملک دورے پر نکلے، پٹنچرو قیام کیا۔ مولوی صاحب خود کہیں دورے پر گئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب نے گھر میں کہلا بھیجا کہ میں آیا ہوں، میرے قیام کا انتظام کر دو۔ ایک کمرا جس میں دو تین کرسیاں اور ایک دو میزیں تھیں، کھول دیا گیا۔ وہ ایلن والے فرنیچر کی تلاش میں تھے، سمجھے مولوی صاحب نے اپنے کمر ے میں سجا رکھا ہوگا، اندر کہلا بھجوایا کہ میں مولوی صاحب کے کمرے میں ٹھہروں گا۔ پہلے تو جواب ملا کہ وہاں آپ کو تکلیف ہوگی، مگر جب ادھر سے اصرار ہوا تو وہ کمرا بھی کھول دیا گیا۔ اندر جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں صفا چٹ میدان ہے۔ نہ دری ہے نہ چادر۔ نہ چاندنی ہے، نہ میز ہے نہ کرسی۔ کمرے کے بیچ میں ایک چھوٹا سا تخت ہے، اس پر ایک کمبل پڑا ہوا ہے۔ بازو میں ایک چوکی پر رحل اور جانماز رکھی ہے، کھونٹی پرکلام مجید لٹک رہا ہے۔ یہ بہت چکرائے، لوگوں سے پوچھا، وہ فرنیچر کہاں گیا۔ معلوم ہوا کہ آتے آتے مولوی صاحب اس کے کوڑے کر آئے۔ بچارے ایک رات ٹھہرے اور صبح ہی کوچ بول دیا۔

کچھ عرصے تک تو نواب محسن الملک اور ان کی بنی رہی، بعد میں اتنی کھنچی کہ ٹوٹ گئی۔ مولوی صاحب کو یہ شکایت تھی کہ محسن املک مجھ پر دباؤ ڈال کر کام نکالنا چاہتے ہیں۔ محسن ا لملک کو یہ شکایت تھی کہ مولوی صاحب میرے مخالف ہو کر میرے اکھاڑنے کی فکر میں ہیں۔ غرض جب عماد السلطنت بہادر کا زمانہ آیا اور محسن الملک بہادر کی کمان چڑھی تو مولوی صاحب کو میدان سے ہٹ جانا ہی مناسب معلوم ہوا۔ دوسرے حیدر آباد میں صحبت کا جو رنگ تھا وہ ایسا نہ تھا جس میں مولوی صاحب کا رنگ جم سکتا۔ اس زمانے کے جو حالات مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے ان کا زبان قلم پر نہ آنا ہی زیادہ مناسب ہے۔

بعد میں دونوں بہ ظاہر ملتے جلتے تھے، لیکن موقع پڑا تو ایک دوسرے کو پردے ہی پردے میں سنائے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک واقعہ تو خود میری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے۔ 1903 کے دربار کے موقع پر کانفرنس کا اجلاس دہلی میں اجمیری دروازے کے باہر ہوا۔ اس زمانے میں نواب محسن الملک، علی گڑھ کالج کے سکریٹری تھے۔ کانفرنس کے صدر ہزہائی نس سر آغا خاں تھے۔ آدمیوں کی یہ کثرت تھی کہ بیٹھنے کو پنڈال میں جگہ نہ ملتی تھی۔ ہر جلسے میں کئی کئی رئیس آ جاتے تھے۔ ایک پورا دن خاص مولوی صاحب کے لکچر کے لیے مقرر ہوا۔ مدت ہوئی تھی کہ مولوی صاحب نے پبلک میں لکچر دینا چھوڑ دیا تھا۔ اس روز جو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب لکچر دیں گے، خلقت ٹوٹ پڑی۔

لکچر شروع ہی ہوا تھا کہ لارڈ کچنر نے کہلا بھیجا کہ آ ج میں بھی آؤں گا۔ نواب محسن الملک نے ایسے با وقعت و ذی جاہ مہمان کے استقبال کی تیاریاں شروع کیں، مولوی صاحب لکچر میں اس گڑ بڑ سے کھنڈت پڑ تی تھی۔ پنڈال کے باہر ذرا گڑ بڑ ہوئی اور نواب محسن الملک سمجھے کہ لارڈ کچنر آ ئے، اٹھ کر باہر گئے اور پھر آ کر بیٹھے۔ اس طرح وہ کوئی دس پندرہ دفعہ باہر گئے اور اند آئے۔ مولوی صاحب بہت جز بز ہوئے، خفا بھی ہوئے مگر ان کی کون سنتا تھا۔

قصہ مختصر آخر لارڈ کچنر آ ہی گئے۔ نواب محسن الملک نے سب کا تعارف کرایا۔ مولوی صاحب نے خود اپنا تعارف کر لیا۔ لارڈ کچنر کہنے لگے، مولوی صاحب ہم نے کورس میں آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، آج آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ مولوی صاحب نے کہا، لاٹ صاحب مجھے بھی آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی، اور سب سے بڑی یہ خوشی ہوئی کہ آپ کی وجہ سے ایک معمہ حل ہو گیا۔ لارڈ کچنر نے کہا، وہ کیا معمہ تھا؟

مولوی صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں قیامت کی نشانیوں میں لکھا ہے کہ اس وقت ایسا تہلکہ ہوگا کہ حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ ایسی کیا مصیبت ہوگی کہ حمل گرا دے گی مگر آج یقین آ گیا جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔ جب آپ کی آمد نے بڑے بڑے پیٹ والے بڈھوں کے حمل گرا دیے تو کیا تعجب ہے کہ قیامت کی آمد عورتوں کے حمل گرا دے۔ تمام پنڈال میں سناٹا ہو گیا مگر مولوی صاحب کو جو کہنا تھا کہہ گئے اور اس طرح اپنے دل کا بخار نکال لیا۔ بات یہ ہے کہ مولوی صاحب کو وقت پر ایسی سوجھتی ھی کہ باید و شاید، چنانچہ امیر حبیب اللہ خاں ہی کے دربار کا واقعہ دیکھ لو۔

امیر حبیب اللہ خاں بقر عید کے دن دہلی میں تھے، اس روز جمعہ تھا۔ صبح بقر عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھی اور جمعہ کی نماز جامع مسجد میں، شام کو سرکٹ ہاؤس میں دربار کیا۔ اس دربار میں آٹھ یا نو دہلی کے ہندو امیر اور اسی قدر مسلمان مشاہیر بلائے گئے، ان میں ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ سر ہنری میک موہن نے ان لوگوں کا تعارف امیر صاحب سے کرایا۔ جب مولوی صاحب کی باری آئی اور ان کی تعریف سر ہنری نے کی، تو امیر صاحب نے کہا، آ پ کو ان کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں خود ان کی تصانیف بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور تقریباً سب کا ترجمہ بھی کرا چکا ہوں۔ دیکھنے کا اشتیاق تھا، وہ آج پورا ہو گیا۔

اس کے بعد باتوں ہی باتوں میں پوچھا، آپ شعر بھی کہتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا، جی ہاں کہتا ہوں لیکن آج آپ کی تعریف میں اپنا نہیں دوسروں کا شعر سناؤں گا۔ یہ کہہ کر متنبی کا یہ شعر پڑھا۔

عید و عید و عید جاء مجتمعا

وجہ الحبیب و یوم العید والجمعا

موقع کے لحاظ سے یہ شعر ایسا بر محل ہو گیا کہ متنبی کو نصیب بھی نہ ہوا ہوگا۔ واقعات اور خاص کر ’’حبیب‘‘ کے لفظ نے شعر میں جان ڈال دی۔ تمام دربار چمک اٹھا۔ امیر حبیب اللہ خاں نے اٹھ کر مولوی صاحب کو گلے سے لگا لیا اور اتنے بوسے دیے کہ مولوی صاحب گھبرا گئے۔

دوسرے روز جو انہوں نے اس واقعے کا ذکر ہم سے کیا، اس کو انہی کے الفاظ میں دہرانا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ کہنے لگے، بھئی میں تو شعر پڑھ کر مصیبت میں پھنس گیا۔ شعر پڑھنا تھا کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شیر نے آ کر مجھے دبوچ لیا۔ اس میرے شیر کا کوئی سوا گز چوڑا سینہ، میں ٹھہرا چھوٹے قد کا آدمی، اس نے جو پکڑ کر بھینچا، تو ادھر تو ہڈیاں پلپلی ہو گئیں، ادھر دم گھٹنے لگا۔ اس کی گرفت سے نکلنے کی ہزار کوشش کرتا ہوں، جنبش تک نہیں ہوتی۔ قسم خدا کی اس وقت تک ہڈیوں میں درد ہو رہا ہے۔ بارے خدا خدا کر کے گرفت ڈھیلی ہوئی تو میں ذرا علاحدہ ہوا۔ ابھی پوری طرح سانس بھی نہ لینے پایا تھا کہ اس نے میری گلے میں بانہیں ڈال، بوسے پر بوسہ لینا شروع کیا۔ بھلا مجھ بڈھے کو دیکھو اور امیر صاحب کی اس حرکت کو دیکھو! کچھ تعریف کا یہ طریقہ افغانستان ہی میں اچھا معلوم ہوتا ہوگا۔ مجھے تو مارے شرم کے پیسنے چھوٹ گئے۔

وہ اللہ کا بندہ ذرا دم لیتا اور سبحان اللہ کہہ کر پھر لپٹ جاتا۔ لپٹتا اور لپٹتے ہی بوسے پر بوسہ لینا شروع کر دیتا۔ بچارے دوسرے بھلے آدمی بیٹھے ہوئے کیا کہتے ہوں گے۔ جب میں نے اس مصیبت سے رہائی پائی، تو میری ناک سے پسینا اس طرح بہہ رہا تھا جس طرح کسی ٹوٹی صراحی میں سے پانی بہتا ہے۔ نا بھائی نا! ایسے دربار کو میرا دور ہی سے سلام ہے۔ کون شعر پڑھ کر اپنی ہڈیاں تڑوائے۔ مولوی صاحب اپنی ہڈیاں سہلاتے جاتے اور یہ قصہ بیان کرتے جاتے تھے۔ مگر ان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ خوشی کے مارے دل کھلا جا رہا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ شعر کی داد اس طرح اور اس رنگ میں آج تک نہ کسی شاعر کو ملی ہے اور نہ ملے گی۔

اس تیزی طبع کے ساتھ صاف گوئی بھی بلا کی تھی۔ جو کہنا ہوتا وہ کہے بغیر نہ رہتے تھے۔ اس میں کسی لفٹننٹ گورنر پر ہی حملہ کیوں نہ ہو جائے۔ 1904 میں لارڈ کرزن کا ایک لکچر ہوا، اور اس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک ہندوستانی یورپ والوں کی طرح سچ بولنے کی عادت نہ ڈالیں گے اس وقت تک ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ اخباروں میں لکچر پڑھ کر مولوی صاحب کو بہت غصہ آیا۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ اس کے چند ہی روز بعد ہمارے کالج میں سالانہ جلسہ ہوا، اور لارڈ لیفر اے، جو ہندوستان کے لاٹ پادری تھے، تشریف لائے۔ شامت اعمال سے انہوں نے بھی اپنے لکچر کا موضوع یہی قرار دیا۔ کالج کی کی طرف سے لاٹ صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مولوی صاحب تجویز کیے گئے۔ اب کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے۔ جو کچھ دل میں بخار بھرا تھا، خوب اچھی طرح نکال لیا۔ کالج والے حیران تھے کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے! مولوی صاحب شکریہ ادا کر رہے ہیں یا لاٹ صاحب پر اعتراضات مگر انہوں نے جب تک اپنے دل کی بھڑاس نہ نکال لی، خاموش نہیں ہوئے۔

سب سے پہلے انہوں نے ہندوستان کے مغربی اثر کو نہایت پر مذاق پہلو سے بیان کیا۔ فرمانے لگے، حضرات! پائجامہ اچھا ہے یا پتلون؟ ہم پرانے آدمی تو موسم کے لحاظ سے اٹھنے بیٹھنے کی سہولت و آرام کے لحاظ سے پائجامے ہی کو اچھا کہیں گے، مگر آج کل کے ہندوستانی صاحب پتلون کا ساتھ دیں گے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہم اچکن یا انگرکھے کو اچھا کہیں گے، اس سے ستر ڈھکتا ہے، آدمی بھاری بھر کم معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے یورپ کے دل دادہ بھائی کوٹ کو پسندکریں گے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ یہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہم بڈھے سلیم شاہی جوتی پر جان دیں گے کیوں کہ اس میں پیر کو آرام ملتا ہے، نرم اور سبک ہوتی ہے۔ ہمارے فیشن کے عاشق فل بوٹ کا انتخاب کریں گے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ یہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہمارے پاس اپنی پرانی ہر چیز کےاچھے ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ ان کے پاس صرف ایک جواب ہے کہ یورپ والے ایسا پہنتے ہیں۔ اور بھئی! ہے بھی یہی بات۔ قسمت نے ہم کو انگریزوں کے ماتحت کر دیا ہے، ان کی ہر چیز ہمارے لیے قابل تقلید ہے اور ان کا فعل ہمارے لیے چراغ ہدایت۔

اب افعال سے گزر کر اقوال پر نوبت آ گئی ہے۔ پادری کرزن، تھوڑے ہی دن ہوئے، فرما چکے ہیں کہ ہندوستانی سچ چھوڑو اور انگریزی سچ بولا کرو۔ آج ہمارے پادری لیفراے بھی ان کے ہم نوا ہوئے ہیں۔ یا تو انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں کے سچ اور یورپ کے سچ میں فرق ہے اور وقت آگیا ہے کہ پائجامے کی طرح ہندوستانی سچ کو اتار پھینک دیا جائے اور پتلون کی طرح ولایتی سچ پہن لیا جائے۔ یا ان کا یہ خیال ہے کہ ہندوستان کے کسی مذہب نے سچ کی تلقین ہی نہیں کی ہے اور یہ نیا مال دساور ہو کر ولایت سے آیا ہے۔ بہر حال کچھ بھی ہو، اب تمہارے پرانے سچ کی قدر نہیں رہی ہے۔

خدا کے لیے اپنا بھلا چاہتے ہو تو ان لاٹ صاحبوں کا حکم مانو۔ یہ بڑے لوگ ہیں۔ مولوی نذیر حسین یا پنڈت بانکے لال نہیں ہیں کہ انہوں نے ہندوستانی سچ بولنے کی ہدایت کی اور تم ہنس کر ٹال گئے۔ لاٹ صاحبوں کی بات نہ مانو گے اور ولایتی سچ نہ بولو گے اور یہ تازہ مال استعمال نہ کر وگے تو یاد رکھو نوکری ملنی مشکل ہو جائے گی اور نوکری نہ ملی تو روٹیوں کی محتاج ہو جائے گے، کیونکہ دونوں لاٹ صاحبوں نے یہ ہدایت نہیں کی ہے کہ نوکری کا خبط چھوڑو اور تجارت یا صنعت و حرفت اختیار کرو۔ اسی سے تمہارے دلدر دور ہوں گے۔

آخر میں مولوی صاحب نے تھوڑا بہت لارڈ لیفر اے کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ لاٹ صاحب اردو بہت اچھی جانتے تھے۔ مولوی صاحب کی اس پر مذاق تقریر پر مسکراتے رہے مگر دل کا خدا ہی مالک تھا۔ کالج کے منتظمین کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مگر یہاں ’’تیر از کمان جستہ‘‘ کی صورت تھی۔ کیا کر سکتے تھے البتہ دل میں انہوں نے ٹھان لی ہوگی کہ آئندہ مولوی صاحب کو شکریہ ادا کرنے کی تکلیف نہ دینا ہی مناسب ہوگا۔

اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد میں حیدر آباد چلا گیا۔ پھر دو دفعہ دہلی میں میرا مولوی صاحب سے ملنا ہوا۔ پہلی دفعہ جو ملا تو یہ وہ زمانہ تھا کہ ’’امہا ت الامہ‘‘ کی وجہ سے مولوی صاحب پر بڑی لے دے ہو رہی تھی۔ میں نے اس کا ذکر چھیڑا۔ کہنے لگے، بھئی مجھے تو اس کتاب میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے لوگ اس طرح بر انگیختہ ہو جائیں۔ تم نے بھی یہ کتاب دیکھی ہوگی۔ آخر تم ہی بتاؤ اس میں میں نے کون سی ایسی نئی بات لکھی ہے؟ میں نے خود ’امہات الامہ‘ نہیں دیکھی تھی مگر میں مولوی صاحب کے طرز تحریر سے واقف تھا۔ اس لیے میں نے یہی کہا کہ مولوی صاحب آپ کا طرز تحریر مذاق کا پہلو لیے ہوتا ہے۔ وہ کچھ قصے کہانیوں ہی میں مزا دیتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں اور خاص کر مذہبی معاملات میں وہ کسی طرح کھپ نہیں سکتا۔ اگر لوگوں کو اعتراض ہوگا تو آپ کے طرز تحریر ہی کے متعلق ہوگا۔

مولوی صاحب نے کہا، میرے کلام مجید کے ترجمے کے متعلق یہ اودھم کیوں نہیں مچا؟ میں نے کہا، اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہیں مگر اس میں آپ کا معاملہ اللہ میاں سے ہے اور یہاں انسانوں سے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’با خدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار۔‘‘ کچھ سوچتے رہے پھر کہنے لگے، کہتے تو سچ ہو۔ اس قسم کی تالیفات میرے دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔ انشاء اللہ دوسرے ایڈیشن میں نقص کو رفع کر دوں گا۔

جب میں چلنے لگا تو فرمایا، کہو بیٹا! پھر ملوگے؟ ابھی تو تمہارے جانے میں بہت دن ہیں۔ میں نے کہا، انشاء اللہ ضرور آؤں گا۔ ہنس کرکہنے لگے، انشا ء اللہ کہنے کے بعد تم ضرور آؤگے! مسلمانوں کو جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو ہزاروں قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ یہ کام میں ضرور کروں گا۔ مگر جب کام کرنے کو جی نہی چاہتا تو ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ انشاء اللہ ضرور کروں گا۔ ہم تو اس کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اس کام کے کرنے کا تو ارادہ نہیں ہے۔ ہاں اگر خدا نے چاہا اور زبردستی یہ کام کرا دیا، تو مجبوراً کر لیں گے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب آپ کو انشاء اللہ کے یہ معنی پہنانے مناسب نہیں۔ آپ مذاقیہ پہلو مذہبی معاملات میں بھی نہیں چھوڑتے۔ کہنے لگے، میاں! پہلے انشا ء اللہ کے معنی دوسرے تھے۔ آج کل مسلمان وہی معانی لیتے ہیں جو میں نے بیان کئے۔

خدا کی قدت دیکھو کہ اسی ر ات کو عین میرے پلنگ کے نیچے طاعون کا چوہا مرا اور صبح ہی کے میل سے میں ایسا دہلی سے بھاگا کہ حیدر آباد آ کر دم لیا۔

دوسری دفعہ جو میں ملا تو مولوی صاحب کی صحت جواب دے چکی تھی۔ چھت پر جو چھوٹا کمرا تھا اس میں آ رہے تھے۔ رعشے میں اضافہ ہو گیا تھا۔ آنکھوں سے بھی کم دکھائی دیتا تھا۔ پلنگ پر بیٹھے رہا کرتے تھے۔ میں نے کمرے کے دروازے میں قدم رکھتے ہی بڑے زور سے سلام کیا۔ کہنے لگے، ہیں یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے کہا، میں ہوں۔ پھر پوچھا، آخر ’’میں‘‘ کون صاحب ہوئے؟ نام کیوں نہیں بتاتے۔ ارے بھائی! اب مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا، ذرا قریب آؤ۔ میں نے کہا، واہ مولوی صاحب واہ! اگر آواز سے نہیں پہچانا، تو خوب پہچانا، دور سے پہچانیئے تو بات ہے۔ ایک دفعہ ہی ہنس پڑے اور کہنے لگے، اوہو، میاں فرحت ہیں! بھلا اور کون یہ بے تکی باتیں کرے گا۔ آؤ بیٹا آؤ۔ اب کے تو کئی برس کے بعد آئے۔

میں پاس گیا، گلے لگایا، حالات پوچھتے رہے۔ باتیں کرتے کرتے کہا، ذرا دیکھنا بھی گھڑی میں کیا بجا ہے؟ میں نے گھڑی دیکھ کر کہا کہ ساڑھے نو میں پانچ منٹ ہیں۔ کہنے لگے، او ہو دیر ہو گئی! ذرا میرا جوتا اور جرابیں تو لے آؤ۔ میں نے لاکر جرابیں پہنائیں۔ جوتا سوکھ کر لکڑی ہو گیا تھا وہ زبر دستی پاؤں میں ٹھونسا۔ جوتا پہن کر کھڑے ہوگئے۔ میں نے کھونٹی پر سے اتار کر شیروانی اور ٹوپی دی۔ وہ پہن کر کہنے لگے، چلو بھئی چلو وقت تنگ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب آخر کہاں جانا ہے؟ کہنے لگے، بیٹا! آج ایک مقدمے کی پیشی ہے، وہاں جا رہا ہوں۔ ذرا مجھ کو کشمیری دروازے تک تو لے چل۔

میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے اترے۔ باہر دیکھوں تو کوئی سواری نہیں۔ میں نے کہا مولوی صاحب! خدا کے لیے اب اس عمر میں تو اس طرح پیدل نہ پھرا کیجئے! خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے، آخر یہ کس دن کے لیے ہے؟ روپیہ اسی لیے ہوتا ہے کہ خرچ کیا جائے۔ بال بچوں کی طرف سے بھی بے فکری ہے۔ کیوں اس بڑھاپے میں آپ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ ذرا اپنی حالت کو دیکھئے اور کشمیری دروازے کو دیکھئے! یہ دو میل آنا جانا آپ کو مضمحل کر دے گا، ذرا ٹھہر جائیے۔ میں گاڑی لے آتا ہوں۔ بہت بگڑے اور کہنے لگے، تجھ کو میرے معاملے میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے! اب چلتا ہے تو چل نہیں میں کسی اور کو بلاتا ہوں، ابھی میرے ہاتھ پاؤں نے ایسا جواب نہیں دیا ہے کہ کشمیری دروازے تک نہ جا سکوں۔

میں نے کہا، مولوی صاحب! خدا کے لیے اب تو گاڑی رکھ لیجئے۔ اگر آپ خرچ نہیں اٹھاتے میں اٹھاؤں گا۔ ہنس کر کہنے لگے، کیوں نہ ہو، روپیہ اچھلنے لگا ہے۔ کیا میرے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ گاڑی نہ رکھ سکوں۔ بیٹا! بات یہ ہے کہ پہلے تو میں اس لیے گاڑی گھوڑ ا نہیں رکھا کہ سائیسوں سے ڈر لگتا تھا۔ ایک تو دانہ گھاس چراتے ہیں، دوسرے گھوڑے کی مالش نہیں کرتے، تیسرے گاڑی کا آج یہ توڑا، کل وہ توڑا، کون بیٹھے بٹھائے اپنی بھلی چنگی جان کو یہ عذاب لگائے اور دن رات کا فکر مول لے۔ رفتہ رفتہ پیدل پھرنے کی عادت ہو گئی۔ اب آخری عمر میں گاڑی کی ضرورت ہوئی تو گاڑی رکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ تمام عمر تو مولوی صاحب جوتیاں چٹخاتے پھرے، اب بڑھاپے میں گاڑی پر سوار ہو کر پھرتے ہیں۔

نا بھئی نا! اب گاڑی رکھنا وضع داری کے خلاف ہے۔ میں نے کہا، تو کمیشن ہی جاری کرا لیا ہوتا۔ کہنے لگے، وہ بھی میری وضع داری کے خلاف ہے۔ بہر حال یہی حجتیں کرتے کرتے کچہری پہنچ گئے۔ ڈپٹی صاحب کو اطلاع ہوئی۔ انہوں نے مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بٹھایا اور سب سے پہلے ان کا مقدمہ لے کر ان کی شہادت قلم بند کی اور یہ جس طرح گئے تھے اسی طرح ہانپتے کانپتے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر آ گئے۔

حیدر آباد آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس چہکتے ہوئے بلبل نے گلشن دنیا سے کوچ کیا۔ جب کبھی دہلی جاتا ہوں تو مولوی صاحب کے مکان پر ضرور جاتا ہوں۔ اندر قدم نہیں رکھتا مگر باہر ہی بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے دیکھا کرتا ہوں۔ اور رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر زبان پر آتا ہے،

یہ چمن یوں ہی رہے گا، اور سارے جانور

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے

اللہ بس، باقی ہوس

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse