Jump to content

ڈارلنگ

From Wikisource
ڈارلنگ (1950)
by سعادت حسن منٹو
325088ڈارلنگ1950سعادت حسن منٹو

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے۔ جب مشرقی اور مغربی پنجاب میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ کئی دن سے موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ وہ آگ جو انجنوں سے نہ بجھ سکی تھی۔ اس بارش نے چند گھنٹوں ہی میں ٹھنڈی کردی تھی۔لیکن جانوں پر باقاعدہ حملے ہورہے تھے اور جوان لڑکیوں کی عصمت بدستور غیر محفوظ تھی۔ ہٹے کٹے نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں باہر نکلتی تھیں اور اِدھر اُدھر چھاپے مار کر ڈری ڈبکی اور سہمی ہوئی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔

کسی کے گھر پر چھاپہ مارنا اور اس کے ساکنوں کو قتل کرکے ایک جوان لڑکی کو کاندھے پر ڈال کر لے جانا بظاہر بہت ہی آسان کام معلوم ہوتا ہے لیکن’س‘ کا بیان ہے کہ یہ محض لوگوں کا خیال ہے۔ کیونکہ اسے تو اپنی جان پر کھیل جانا پڑا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کو’س‘ کا بیان کردہ واقعہ سناؤں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آپ کو متعارف کرادوں۔’س‘ ایک معمولی جسمانی اور ذہنی ساخت کا آدمی ہے۔ مفت کے مال سے اس کو اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی عام انسانوں کو ہوتی ہے۔ لیکن مالِ مفت سے اس کا سلوک دلِ بے رحم کا سا نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ایک عجیب و غریب ٹریجڈی کا باعث بن گیا۔ جس کا علم اسے بہت دیر میں ہوا۔

اسکول میں’س‘ اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ ہر کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ لیکن کھیلتے کھیلتے جب نوبت لڑائی تک جا پہنچی تھی تو’س‘ اس میں سب سے پیش پیش ہوتا۔ کھیل میں وہ ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کر جاتا تھا۔ لیکن لڑائی کے موقع پر اس نے ہمیشہ ایمانداری سے کام لیا۔

مصوری سے’س‘ کو بچپن ہی سے دلچسپی تھی۔ لیکن کالج میں داخل ہونے کے ایک سال بعد ہی اس نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر سائیکلوں کی دکان کھول لی۔

فساد کے دوران میں جب اس کی دکان جل کر راکھ ہوگئی تو اس نے لوٹ مار میں حصہ لینا شروع کردیا۔ انتقاماً کم اور تفریحاً زیادہ، چنانچہ اسی دوران میں اس کے ساتھ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ جو اس کہانی کا موضوع ہے۔ اس نے مجھ سے کہا، ’’موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ منوں پانی برس رہا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی تیز و تند بارش کبھی نہیں دیکھی۔ میں اپنے گھر کی برساتی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے سامنے لوٹے ہوئے مال کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ بے شمار چیزیں تھیں مگر مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میری دکان جل گئی تھی۔ مجھے اس کا بھی کوئی اتنا خیال نہیں تھا شاید اس لیے کہ میں نے لاکھوں کا مال تباہ ہوتے دیکھا تھا۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، دماغ کی کیا کیفیت تھی۔۔۔ اتنے زور سے بارش ہورہی تھی۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہر چیز خشک ہے۔۔۔ جلے ہوئے مردنڈوں کی سی بو آرہی تھی۔ میرے ہونٹوں میں جلتا ہوا سگرٹ تھا۔ اس کے دھوئیں سے بھی کچھ ایسی ہی بونکل رہی تھی۔۔۔ جانے کیا سوچ رہا تھا اور شاید کچھ سوچ ہی نہیں رہا تھا کہ ایک دم بدن پر کپکپی سی دوڑ گئی اور جی چاہا کہ ایک لڑکی اٹھا کر لے آؤں۔جونہی یہ خیال آیا۔ بارش کا شور سنائی دینے لگا اور کھڑکی کے باہر ہر چیز پانی میں شرابور نظر آنے لگی۔۔۔ میں اٹھا، سامنے لوٹے ہوئے مال کے ڈھیر سے سگرٹوں کا ایک نیا ڈبہ اٹھا کر میں نے برسانی پہنی اور نیچے اتر گیا۔‘‘

’’سڑکیں اندھیری اور سنسان تھیں۔ سپاہیوں کا پہرہ بھی نہیں تھا۔ میں دیر تک ادھر ادھر گھومتارہا۔ اس دوران میں کئی لاشیں مجھے نظر آئیں۔ لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ گھومتا گھامتا میں سول لائنز کی طرف نکل گیا۔ لُک پھری ہوئی سڑک بالکل خالی تھی۔ جہاں جہاں بجری اکھڑی ہوئی تھی۔ و ہاں بارش جھاگ بن کر اڑ رہی تھی۔ دفعتہً مجھے موٹر کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی موٹر بیبی آسٹن اندھا دھند چلی آرہی تھی۔ میں سڑک کے عین درمیان میں کھڑا ہوگیا اور دونوں ہاتھ اس انداز سے ہلانے لگا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ رک جاؤ۔‘‘

’’موٹر بالکل پاس آگئی مگر اس کی رفتار میں فرق نہ آیا۔ چلانے والے نے رخ بدلا۔ میں بھی پینترہ بدل کر ادھر ہوگیا۔ موٹر تیزی سے دوسری طرف مڑ گئی۔ میں بھی لپک کر ادھر ہولیا۔ موٹر میری طرف بڑھی مگر اب اس کی رفتار دھیمی ہوگئی تھی میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔۔۔ پیشتر اس کے کہ میں کچھ سوچتا مجھے زور سے دھکا لگا اور میں اکھڑ کر فٹ پاتھ پر جاگرا۔ جسم کی تمام ہڈیاں کڑکڑا اٹھیں مگر مجھے چوٹ نہ آئی۔ موٹر کے بریک چیخے، پہیّے ایک دم پھسلے اور موٹر تیرتی ہوئی سامنے والے فٹ پاتھ پر چڑھ کر ایک درخت سے ٹکرائی اور ساکت ہوگئی۔ میں اٹھا اور اس کی طرف بڑھا۔ موٹر کا دروازہ کھلا اور ایک عورت سرخ رنگ کا بھڑکیلا مومی رین کوٹ پہنے باہر نکلی۔ میری کڑکڑائی ہوئی ہڈیاں ٹھیک ہوگئیں اور جسم میں حرارت پیدا ہوگئی۔رات کے اندھیرے میں مجھے صرف اس کا شوخ رنگ رین کوٹ ہی دکھائی دیا۔ لیکن اتنا اشارہ کافی تھا کہ اس مومی کپڑے میں لپٹا ہوا جو کوئی بھی ہے۔صنفِ نازک میں سے ہے۔‘‘

’’میں جب اس کی طرف بڑھا تو اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ بارش کے لرزتے ہوئے پردے میں سے مجھے دیکھ کر بھاگی۔ مگر میں نے چند گزوں ہی میں اسے جا لیا جب ہاتھ اس کے چکنے زین کوٹ پر پڑا تو وہ انگریزی میں چلائی۔’’ہلپ ہلپ۔‘‘

میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر انگریزی میں چلائی’’ ہلپ ہلپ۔۔۔ ہی از کلنگ می۔‘‘

میں نے اس سے انگریزی میں پوچھا۔’’آر یو اے انگلش وومن‘‘ فقرہ منہ سے نکل گیا تو خیال آیا کہ اے کی جگہ مجھے این کہنا چاہیے تھا۔ اس نے جواب دیا۔’’نو۔‘‘

انگریز عورتوں سے مجھے نفرت ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا’’دَن اِٹ از آل رائیٹ۔‘‘

اب وہ اردو میں چلانے لگی۔’’ تم مار ڈالو گے مجھے۔ تم مار ڈالو گے مجھے۔‘‘

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس لیے کہ میں اس کی آواز سے، اس کی شکل و صورت اور عمر کا اندازہ لگا رہا تھا۔ لیکن ڈری ہوئی ہوئی آواز سے کیا پتہ چل سکتا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر سے ہڈہٹانے کی کوشش کی۔ پر اس نے دونوں ہاتھ آگے رکھ دیے۔ میں نے کہا۔ ہٹاؤ اور سیدھا موٹر کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر اس کو پچھلی سیٹ پرڈ الا اور خود اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گیر درست کرکے سلف دبایا تو انجن چل پڑا۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہینڈل گھمایا۔ گاڑی کوفٹ پاتھ پر سے اتارا اور سڑک میں پہنچ کر اکسلریٹر پر پیر رکھ دیا۔۔۔ موٹر تیرنے لگی۔

گھر پہنچ کر میں نے پہلے سوچا کہ اوپر برساتی ٹھیک رہے گی۔ لیکن اس خیال سے کہ لونڈیا کو اوپر لے جانے میں جھک جھک کرنی پڑے گی۔ اس لیے میں نے نوکر سے کہا۔ دیوانہ خانہ کھول دو۔ اس نے دیوان خانہ کھولا تو میں نے اسے گھپ اندھیرے ہی میں صوفے پر ڈال دیا۔ سارا رستہ خاموش رہی تھی۔ لیکن صوفے پر گرتے ہی چلانے لگی۔’’ڈونٹ کِل می۔۔۔ڈونٹ کِل می پلیز۔‘‘

مجھے ذرا شاعری سوجھی۔’’ آئی وونٹ کِل یو۔۔۔ آئی وونٹ کِل یو ڈارلنگ۔‘‘

وہ رونے لگی۔ میں نے نوکر سے کہا۔ چلے جاؤ۔ وہ چلا گیا۔ میں نے جیب سے دیا سلائی نکالی۔ ایک ایک کرکے ساری تیلیاں نکالیں مگر ایک بھی نہ سلگی۔ اس لیے کہ بارش میں ان کے مصالحے کا بالکل فالودہ ہوگیا تھا۔ بجلی کا کرنٹ کئی دنوں سے غائب تھا۔۔۔ اوپر برساتی میں ٹوٹے ہولے مال کے ڈھیر میں کئی بیٹریاں پڑی تھیں۔ لیکن میں نے کہا۔ اندھیرے ہی میں ٹھیک ہے، مجھے کون سی فوٹو گرافی کرنی ہے۔۔۔ چنانچہ برساتی اتار کر میں نے ایک طرف پھینک دی اور اس سے کہا۔’’لائیے میں آپ کا رین کوٹ اتار دوں۔‘‘

میں نیچے صوفے کی جانب جھکا۔ لیکن وہ غائب تھی۔ میں بالکل نہ گھبرایا۔ اس لیے کہ دروازہ نوکر نے باہر سے بند کردیا تھا۔ گُھپ اندھیرے میں اِدھر اُدھر میں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ گئے اور تپائی کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑے۔ فرش پر لیٹے ہی لیٹے میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو گردن پر جاپڑا۔ وہ چیخی میں نے کہا۔’’چیختی کیوں ہو۔۔۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔‘‘

اس نے پھر سسکیاں لینا شروع کردیں۔ شاید اس کا پیٹ ہی تھا جس پر میرا ہاتھ پڑا۔ وہ دوہری ہوگئی۔ میں نے جیسا بھی بن پڑا اس کے رین کوٹ کے بٹن کھولنے شر وع کردیے۔ مومی کپڑا بھی عجیب ہوتا ہے جیسے بوڑھے گوشت میں چکنی چکنی جھریاں پڑی ہوں۔ وہ روتی رہی اور ادھر ادھر لپٹ کر مزاحمت کرتی رہی۔ لیکن میں نے پورے بٹن کھول دیے اسی دوران میں مجھے معلوم وہ کہ وہ ساڑھی پہنے تھی۔۔۔ میں نے کہا یہ تو ٹھیک رہا۔ چنانچہ میں نے ذرا معاملہ دیکھا۔۔۔ خاصی سڈول پنڈلی تھی جس کے ساتھ میرا ہاتھ لگا۔۔۔ وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ میں پہلے ذرا یوں ہی سلسلہ کررہا تھا۔ پنڈلی کے ساتھ جب میرا ہاتھ لگا تو بدن میں چار سو چالیس والٹ پیدا ہوگئے۔ لیکن میں نے فوراً ہی بریک لگا دیے کہ سہج پکے سو میٹھا ہو ئے۔۔۔ چنانچہ میں نے شاعری شروع کردی۔

’’ڈارلنگ۔ میں تمہیں یہاں قتل کرنے کے لیے نہیں لایا۔ ڈرو نہیں۔۔۔ یہاں تم زیادہ محفوظ ہو، جانا چاہو تو چلی جاؤ۔ لیکن باہر لوگ درندوں کی طرح چیر پھاڑ دیں گے۔۔۔ جب تک یہ فساد ہیں تم میرے ساتھ رہنا۔۔۔ تم پڑھی لکھی لڑکی ہو، میں نہیں چاہتا کہ تم گنواروں کے چنگل میں پھنس جاؤ۔۔۔‘‘

اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔’’ یو وونٹ کِل می؟‘‘

میں نے فوراً ہی کہا۔’’نو سر۔‘‘

وہ ہنس پڑی۔۔۔ مجھے فوراً ہی خیال آیا کہ عورت کو سر نہیں کہا کرتے۔ بہت خفت ہوئی۔ لیکن اس کے ہنس پڑنے سے مجھے کچھ حوصلہ ہوگیا۔ میں نے کہا۔ معاملہ پٹا سمجھو، چنانچہ میں بھی ہنس پڑا۔’’ ڈارلنگ، میری انگریزی کمزور ہے۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا۔’’ اگر تم مجھے مارنا نہیں چاہتے تو یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘

سوال بڑا بے ڈھب تھا۔ میں نے جواب سوچنا شروع کیا۔ لیکن تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا جو منہ میں آئے کہہ دو۔’’ میں تمہیں مارنا بالکل نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ مجھے یہ کام بالکل اچھا نہیں لگتا۔۔۔ تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں اکیلا تھا۔‘‘

وہ بولی۔’’تمہارا نوکر تمہارے پاس رہتا ہے۔‘‘

میں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا۔’’اس کا کیا ہے وہ تو نوکر ہے۔‘‘

وہ خاموش ہوگئی۔ میرے دماغ میں نیکی کے خیال آنے لگے میں نے کہا۔ ہٹاؤ چنانچہ اٹھ کر اس سے کہا، ’’ تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ اٹھو۔‘‘

میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک دم مجھے اس کی پنڈلی کا خیال آگیا اور میں نے زور سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا۔ اس کی گرم گرم سانس میری ٹھوڑی کے نیچے گھس گئی۔ میں نے اٹکل پچو اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر جما دیے۔ وہ لرزنے لگی۔ میں نے کہا۔’’ڈارلنگ ڈرو نہیں۔۔۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔‘‘

’’چھوڑ دو مجھے۔‘‘ کی آواز میں عجیب و غریب قسم کی کپکپاہٹ تھی۔

میں نے اسے اپنی گرفت سے علیحدہ کردیا۔ لیکن فوراً ہی اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ سڑک پر اسے اٹھاتے وقت مجھے محسوس نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اس کے کولہوں کا گوشت بہت ہی نرم تھا۔۔۔ ایک بات مجھے اور بھی معلوم ہوئی وہ یہ کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ تھا۔ میں نے اسے صوفے پر لٹا دیا اور بیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔’’ اگر اس میں کوئی قیمتی چیز ہے تو یقین رکھو یہاں بالکل محفوظ رہے گی۔۔۔ بلکہ چاہو تو میں بھی تمہیں کچھ دے سکتا ہوں۔‘‘

وہ بولی، ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘

’’لیکن مجھے چاہیے‘‘

اس نے پوچھا، ’’کیا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔ ’’تم۔‘‘

وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ میں فرش پر بیٹھ کر اس کی پنڈلی سہلانے لگا۔ وہ کانپ اٹھی۔ لیکن میں ہاتھ پھیرتا رہا۔ اس نے جب کوئی مزاحمت نہ کی تو میں نے سوچا کہ مجبوری کی وجہ سے بیچاری نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس سے میری طبیعت کچھ کھٹی سی ہونے لگی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔’’ دیکھو میں زبردستی کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ تمہیں منظور نہیں ہے تو جاؤ۔‘‘

یہ کہہ کر میں اٹھنے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ جو کہ دھک دھک کررہا تھا۔ میرا بھی دل اچھلنے لگا۔ میں نے زور سے ڈارلنگ کہا اور اس کے ساتھ چمٹ گیا۔

دیر تک چوما چاٹی ہوتی رہی۔ وہ سسکیاں بھر بھر کے مجھے ڈارلنگ کہتی رہی۔ میں بھی کچھ اسی قسم کی خرافات بکتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے کہا۔’’ یہ رین کورٹ اتار دو۔۔۔ بہت ہی واہیات ہے۔‘‘

اس نے جذبات بھری آواز میں کہا۔’’ تم خود ہی اتار دو ناں۔‘‘

میں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور کوٹ اس کے بازوؤں میں سے کھینچ کر اتار دیا۔

اس نے بڑے پیار سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘

میں اس وقت اپنا حدود اربعہ بتانے کے موڈ میں نہیں تھا۔’’تمہارا ڈارلنگ!‘‘

اس نے’’یو آر اے نوٹی بوائے‘‘ کہا اور اپنی باہیں میرے گلے میں ڈ ال دیں میں اس کا بلاؤز اتارنے لگا تو اس نے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور التجا کی۔

’’مجھے ننگا نہ کرو ڈارلنگ، مجھے ننگا نہ کرو۔‘‘

میں نے کہا۔’’ کیا ہوا۔۔۔ اس قدر اندھیرا ہے۔‘‘

’’نہیں، نہیں!‘‘

’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ۔۔۔‘‘ اس نے میرے دونوں ہاتھ اٹھا کر چومنے شروع کردیے اور لرزاں آواز میں کہنے لگی۔’’ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے۔‘‘

عجیب ہی سی بات تھی۔ لیکن میں نے کہا۔ چلو ہٹاؤ چھوڑو بلاؤز کو۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کچھ دیر خاموش رہا تو اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا’’ تم ناراض تو نہیں ہوگئے؟‘‘

مجھے کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں ناراض ہوں یا کیا کہوں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’نہیں نہیں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔۔۔ تم بلاؤز نہیں اتارنا چاہتی ہو، نہ اتارو۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘ اس سے آگے کہتے ہوئے مجھے شرم آگئی۔ لیکن ذرا گول کرکے میں نے کہا۔’’ لیکن کچھ تو ہونا چاہیے۔ میرا مطلب ہے کہ ساڑھی اتار دو۔۔۔‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کا حلق سوکھ گیا۔

میں نے بڑے پیار سے کہا۔’’ کس سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’اسی سے۔۔۔۔ اسی سے‘‘ اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔

میں نے اسے تسلی دی کہ ڈرنے کی وجہ کوئی بھی نہیں۔’’ میں تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔ لیکن اگر تمہیں و اقعی ڈر لگتا ہے تو جانے دو۔۔۔ دو تین دن یہاں رہو جب میری طرف سے تمہیں پورا اطمینان ہو جائے تو پھر سہی۔‘‘

اس نے روتے روتے کہا، ’’نہیں نہیں۔‘‘ اور اپنا سر میری رانوں پر رکھ دیا۔

میں اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے رونا بند کردیا اور سوکھی سوکھی ہچکیاں لینے لگی۔ پھر ایک دم مجھے اپنے ساتھ زور کے ساتھ بھینچ لیا اور شدت کے ساتھ کانپنے لگی۔ میں نے اسے صوفے پر سے اٹھ کر فرش پر بٹھا دیا اور۔۔۔

کمرے میں دفعتہً روشنی کی لکیریں تیر گئیں۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا’’ کون ہے؟‘‘ نوکر کی آواز آئی، ’’لالٹین لے لیجیے‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا‘‘ لیکن اس نے آواز بھینچ کر خوفزدہ لہجے میں کہا، ’’نہیں نہیں۔‘‘

میں نے کہا، ’’حرج کیا ہے۔ ایک طرف نیچی کرکے رکھ دوں گا۔‘‘ چنانچہ میں نے اٹھ کرلالٹین لی اور دروازہ اندر سے بند کردیا۔۔۔ اتنی دیر کے بعد روشنی دیکھی تھی۔ اس لیے آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ اٹھ کر ایک کونے میں کھڑی ہوگئی تھی۔ میں نے کہا’’ بھئی اتنا بھی کیا ہے۔ تھوڑی دیر روشنی میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ جب تم کہو گی اسے گل کردیں گے۔‘‘

چنانچہ میں لالٹین ہاتھ ہی میں لیے اس کی طرف بڑھا۔ اس نے ساڑھی کا پلو سرکا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ میں نے کہا’’ تم بھی عجیب و غریب لڑکی ہو۔۔۔ اپنے دولھے سے بھی پردہ۔‘‘

یہ کہہ میں سمجھنے لگا کہ وہ میری دولہن ہے اور میں اس کا دولھا۔ چنانچہ اسی تصور کے۔۔۔ تحت میں نے اس سے کہا، ’’اگر ضد ہی کرنی ہے تو بھئی کرلو۔۔۔ ہمیں آپ کی ہر ادا قبول ہے۔‘‘

ایک دم زور کا دھماکا ہوا۔ وہ میرے ساتھ چمٹ گئی۔ کہیں بم پھٹا تھا۔ میں نے اس کو دلاسا دیا۔’’ڈرو نہیں۔۔۔ معمولی بات ہے‘‘ ایک دم مجھے خیال آیا جیسے میں نے اس کے چہرے کی جھلک دیکھی تھی۔ چنانچہ اس کو دونوں کندھوں سے پکڑ کرمیں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔۔۔ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے کیا دیکھا۔۔۔ بہت ہی بھیانک صورت، گال اندر دھنسے ہوئے جن پر گاڑھا میک اپ تھپا تھا۔ کئی جگہوں پر سے اس کی تہہ بارش کی وجہ سے اتری ہوئی تھی اور نیچے سے اصلی جلد نکل آئی تھی جیسے کئی زخموں پرسے پھاہے اتر گئے ہیں۔۔۔ خضاب لگے خشک اور بے جان بال جن کی سفید جڑیں دانت دکھا رہی تھیں۔۔۔ اور سب سے عجیب و غریب چیز مومی پھول تھے جو اس نے اس کان سے اس کان تک ماتھے کے ساتھ ساتھ بالوں میں اڑسے ہوئے تھے۔۔۔ میں دیر تک اس کو دیکھتا رہا۔ وہ بالکل ساکت کھڑی رہی۔ میرے ہوش و حواس گم ہوگئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں سنبھلا تو میں نے لالٹین ایک طرف رکھی اور اس سے کہا’’تم جانا چاہو تو چلی جاؤ!‘‘

اس نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن جب دیکھا کہ میں اس کا رین کوٹ اور بیگ اٹھا رہا ہوں تو خاموش ہوگئی۔ میں نے یہ دونوں چیزیں اس کی طرف دیکھے بغیر اس کو دے دیں۔ وہ کچھ دیر گردن جھکائے کھڑی رہی۔ پھر دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔‘‘

یہ واقعہ سُنا کر میں نے ’س‘ سے پوچھا، ’’جانتے ہو وہ عورت کون تھی؟‘‘

’س‘ نے جواب دیا، ’’نہیں تو۔‘‘

میں نے اس کو بتایا، ’’وہ عورت مشہور آرٹسٹ مس’م‘ تھی۔‘‘

وہ چلایا، ’’مس ’م‘؟ وہی جس کی بنائی ہوئی تصویروں کی میں اسکول میں کاپی کیا کرتا تھا؟‘‘

میں نے جواب دیا، ’’وہی۔۔۔ ایک آرٹ کالج کی پرنسپل تھی۔ جہاں وہ لڑکیوں کو صرف عورتوں اور پھولوں کی تصویر کشی سکھاتی تھی۔۔۔ مردوں سے اسے سخت نفرت تھی۔‘‘

یہ سن کر ’س‘ کچھ سوچنے لگا۔ ایک دم چونکا، ’’کہاں ہے آج کل۔‘‘

میں نے جواب دیا، ’’آسمان پر‘‘

اس نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘

میں نے جواب دیا، اسی رات کو جب تم نے اسے باہر نکالا اس کی موٹر کا حادثہ ہوا اور وہ مر گئی۔ لیکن اس کے قاتل تم ہو۔ یہ صرف میں جانتا ہوں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تم دو عورتوں کے قاتل ہو۔ ایک اس عورت کے جس کو سب مشہور آرٹسٹ کی حیثیت سے جانتے ہیں، دوسری اس کے جو تمہارے دیوان خانے میں پہلی عورت کے قالب میں سے باہر نکلی تھی اور جس کو صرف تم جانتے ہو۔۔۔‘‘

’س‘ خاموش رہا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.