چین ہو یا بے چینی ہو پہلے دل گھبرائے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چین ہو یا بے چینی ہو پہلے دل گھبرائے گا
by نوح ناروی

چین ہو یا بے چینی ہو پہلے دل گھبرائے گا
جاتے جاتے جائے گی آتے آتے آئے گا

قاصد آنے جانے میں تھک تھک کر گھبرائے گا
جائے گا پھر آئے گا آئے گا پھر جائے گا

ڈھونڈنے والی نظروں نظروں دیکھیں گے پہلو کی طرف
ان کی اس دل جوئی پر میرا دل اترائے گا

دل میں امیدیں لاکھوں تھیں کچھ نکلیں ہیں کچھ باقی ہیں
خیر کبھی پھر آؤ گے پھر کبھی دیکھا جائے گا

دیر و حرم کے مالک سے ہم کچھ مانگیں بھی تو سہی
ہے وہ بڑا دینے والا دے گا یا دلوائے گا

دل کے خود آزار و الم دل کی قدر بڑھائیں گے
ہوگا یہ اکسیر مگر خاک میں جب مل جائے گا

ناصح آنے والا ہے دو ہی باتیں ہونی ہیں
یا اسے ہم سمجھائیں گے یا وہ ہمیں سمجھائے گا

شکوۂ غم کی محشر میں ہم کو تو امید نہیں
سامنے وہ آ جائیں گے ہوش کسے رہ جائے گا

دل دینے والا غم سے چھٹ جائے گا دل دے کر
دل لینے والا دل میں دل لے کر پچھتائے گا

نوحؔ کے رونے پر ہنسنا بے دردوں کا خواب نہیں
بحر محبت میں اس سے اور بھی طوفان آئے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse